مولاناعنایت اللہ طورویؒ

مولاناعنایت اللہ طورویؒ

مولاناعنایت اللہ طورویؒ

گا ہے گاہے باز خواں ایں قصہ پارینہ را

تازہ خواہی داشتن گرداغ ہائے سینہ را

طورو: ہوتی مردان کے نواح میں طورو ایک مشہور قصبہ ہے، جسے اپنے نامور علما یے کرام کی وجہ سے بخارایے ثانی  کا نام دیا گیا ہے۔اس خوش نصیب قصبہ میں قبیلہ یوسفزئی کے بزرگ خوانین کے علاوہ امو خیل، زید خیل،صدیق خیل، موسی خیل،بوسی خیل ، کمبار،ماندوری، صاحب زادگان اورحسنی سادات کے گھرانے اباد ہیں۔ ان خاندانوں کے اپنے محلے اور حجرے ہیں اور قدیم عرصے سے دوسری پختونوں کی طرح  عمومی طور پر زراعت سے تعلق رکھتے ہیں۔

حسنی سادات

طورو کے عبدالعزیزی حسنی سادات میں گیارہویں  صدی ہجری میں ایک صاحب گزرے ہیں جنہیں اہل علم شیخ نور محمد المعروف بہ اخوند یونس گیلانی کے نام سے جانتے ہیں اور جو اپنے علاقے میں خاوو بابا کے لقب سےیاد کئے جاتے ہیں۔ ان کا مزار طورو سے تین  میل کے فاصلے پرمغرب کی طرف موضع خاوو  میں موجود ہے آپ ایک بڑے عالم ، صاحب طریقت بزرگ اور مجاہد تھے، جنہوں نے گردوپیش کے علاقے میں نہ صرف علم و عرفان کی روشنی پھیلائی بلکہ دیر کے کوہستانوں میں جہاد بھی کئے۔ آپ کی اولاد میں نسل در نسل بڑے بڑے علماء  و ادیب اور حفاظ پیداہوئے۔ جو پختونخوا کے علاوہ بلادہند و اقطار ، افغانستان وغیرہ میں علوم اسلامیہ کی تعلیم و تدریس کا فریضہ انجام دیتے رہے۔

انیسویں اور بیسویں صدی ہجری میں خاوؤ بابا کے خاندان میں حضرت مولانا سید حفیظ اللہ صاحب  نور اللہ مرقدہ کے پانچ بیٹوں، حضرت علامہ سید محمد اسرائیل شہید،حضرت مولانا سید اسحاق صاحب، حضرت مولانا سید محمد اسماعیل صاحب، حضرت العلامہ سید محمد حافظ عبدالجمیل صاحب اور حضرت مولانا حافظ عبدالجلیل صاحب نے علوم دین کے تمام شعبوں میں بڑا نام پیدا کیا۔

حضرت علامہ عبدالجمیل صاحب

 ان نامور بھائیوں میں سے حضرت العلامہ حافظ محمد عبدالجمیل صاحب نے بیسیوں علمائے کرام  سے علوم اسلامیہ کا اکتساب کیا اورصوبہ سرحد بلادہند کے بزرگان دین سے فیض حاصل کیا۔ اور آخر کار حضرت العلامہ محمد لطف اللہ علی گڑھی کی درسگاہ میں پہنچے، جہاں کئی سال تک مقیم رہے، علی گڑھ (بھارت)کے اس جلیل القدر عالم سے علوم و فنون کا درس لیتے رہے اور پھر ان ہی کے مشورے سے رامپور اور مدرسہ لطیفیہ دیلور(بنگلور) میں صدر معلم کے عہدے پر فائز رہ کر خدمات انجام  دیتے رہے۔ آپ نے مختلف اوقات میں ہندوستان کے مختلف دینی مراکز میں کام کیا مدرسہ فتح پور دہلی میں صدر مدرس تھے تو ہندوستان کے مشہور زمانہ عالم اور نابغہ روزگار علامہ سید انور شاہ کشمیری رحمتہ اللہ آپ کے شاگرد رہے۔ اور جب محدث کاشمیری دارالعلوم دیوبند میں استاد تھے تو مولانا عبدالجمیل صاحب کے بھتیجوں حضرت مولانا لطف الرحمان صاحب اور حضرت مولانا حافظ سید محمد امین الحق صاحب کے ساتھ محبت سے پیش آتے اور بقول مولانا امین الحق صاحب فرماتے کہ “یہ میرے استاد کی اولاد ہے

حضرت مولانا عنایت اللہ

حضرت مولانا عبدالجمیل صاحب کے تین بیٹے تھے ، مولانا محمد لطف اللہ فاضل دیوبند ، مولانا محمد عنا یت اللہ فاضل دیوبند اور حافظ محمد امانت اللہ رحمتہ اللہ تعالی اجمعین

والد محترم مولانا عنایت اللہ 1910 ء میں بمقام طوروو پیدا ہوئے، ناظرہ قران پڑھنے کے بعد اپنے والد صاحب کی غیر حاضری میں انہیں والدہ محترمہ نے اسکول میں داخل کرایا۔ طورو  کے پرائمری اسکول میں صاحبزادہ فضل الرحمان محترم عبدالطیف صاحب منی خیل اور مولانا محمد جی استاد صاحب شہید (مولانا سید فضل معبود صاحب) کے والد محترم  آپ کے مشفق اساتذہ تھے، ان ایام میں آپ کے والد صاحب ہندوستان میں تھے۔ جماعت چہارم پاس کرنے کے بعد والدہ صاحبہ نے آپ کو حکیم احمد نور صاحب المعروف بہ طبیب ملا صاحب، مدرسہ سراج الاسلام ہوتی مردان میں داخل کرایا، حکیم صاحب آپ کو “صرف” پڑھانے لگے۔ ان دنوں مدرسہ سراج الاسلام میں طورو کے حافظ سید احمد شاہ صاحب مرحوم قرآن پڑھانے پر مامور تھے۔ اس اثنا میں آپ کے والد صاحب ہندوستان سے واپس آئے تو گھر پر اپنے بیٹے کو پڑھانے لگے۔ لڑکپن میں بچے کھیل کود کی طرف راغب ہوتے ہیں۔ اس لئیے والد صاحب کو اپنے بڑے بھائی مولانا لطف اللہ نے سزا دی اور باباجی نے بھی جھڑکا۔

تعلیمی سفر

ناراض ہو کر والد صاحب نے اپنے گھر سے 20 روپے لئے  اور قطبی  اور کافیہ ساتھ لے کر دارالعلوم دیوبند کا ارادہ کر کے بلا اجازت چلے گئے۔ نوشہرہ پہنچے تو ریلوے اسٹیشن پر ایک بزرگ بصورت خضر ملے۔ انہوں نے بچے کو ہدایت کی کہ دارالعلوم دیوبند میں ان دنوں داخلے نہیں ملتے۔ نیز تم چھوٹے ہو اور دیوبند بہت دور ہے۔ جبکہ غرغشتو میں بڑے بڑے فاضل علماء موجود ہیں۔ پہلے وہاں جا کر پڑھو پھر کوئی اور پروگرام بناؤ۔ انہوں نے موصوف کو غرغشتی کا راستہ بتایا۔ اٹک تک ان کی رہبری کی۔

حضرت مولانا قطب الدین ‘ غورغشتی کے درس میں

آپ غورغشتی میں حضرت مولانا قطب الدین صاحب کے درس میں شامل ہوگئے۔ وہاں آپ کے والد صاحب کے ایک شاگرد مولوی عبد اللہ (بنوں ملا) موجود تھے۔ انہوں نے والد صاحب مرحوم کا استد گرامی سے تعارف کرایا۔ اور طورو خط بھیج دیا کہ عنایت اللہ غورغشتی پہنچ آیا ہے۔ اور میبذی اور ملاحن کا درس شروع کیا، مولانا قطب الدین مرحوم بقول والد صاحب عمر میں علامہ عبدالجمیل صاحب سے چھوٹے تھے اور حضرت مولانا لطف اللہ بن اسد اللہ علی گڑھی کے شاگرد رہ چکے تھے ، اس لئے علامہ کے ساتھ ان کے تعلقات برادرانہ تھے۔

امتحان اور انعام

قیام غورغشتی میں والد صاحب کے نام باباجی کا خط آیا۔ لکھا تھا، پڑھنے کے لئے گئے ہو تو خوش ہوں۔ واپسی پر امتحان لوں گا۔ پاس ہوگئے تو بیس روپے بھی معاف ہیں اور پانچ روپے ماہوار بھی دیا کروں گا۔ ناکام ہونے کی صورت میں ساری رقم لوٹانا ہوگی۔

سوات کا سفر

غورغشتی میں نو ماہ گزار کر موصوف واپس طورو آئےتو حسب وعدہ باباجی نے آپ کا امتحان لیا۔ پاس ہوگئے۔ اور انعام کے مستحق قرار دئے گئے۔ اس دوران حکمران ریاست سوات میاں عبد الودود صاحب نے آپ کے والد صاحب کو سوات آنے کی دعوت دی۔ علامہ نے دعوت قبول فرمائی۔ اور بیٹے سے کہا کہ اب واپس غورغشتی کے بجائےمیرے ساتھ سوات جاؤگے۔

حضرت مولانا قطب الدین سے شاگردی کی عقیدت

والد صاحب مرحوم مولانا محمد عنایت اللہ کو اپنے استاد مولانا قطب الدین صاحب سے بڑی عقیدت تھی۔ استاد محترم بھی نو مہینے کے اس شاگرد کو کبھی نہیں بھولے۔ دونوں  میں ہمیشہ ایک ربط اور تعلق تھا۔ اور روحانی طور پر مولانا قطب الدین صاحب والد صاحب پر نظر رحمت و شفقت رکھتے تھے آپ فرمایا کرتے تھے۔

سوات میں

سوات میں علامہ عبدالجمیل صاحب ولی عہد عبدالحق جہانزیب کے اتالیق تھے گو ریاست ان کی عزت کرتی تھی اور عوام الناس آپ کے علم  اور شاہی گھرانے سے وابستگی کی وجہ سے آپ کی قدر کرتے تھے۔ لیکن علامہ صاحب فاضل، عالم اور حساس آدمی تھے۔ جبکہ  حکمران ریاست سوات ایک عام شخص تھا۔ اس لئے ان کی محفل میں علامہ کو سکون نہیں ملا۔ آٹھ سال تک آپ سوات میں رہے کبھی کبھی طورو آجاتے۔ میرے والد صاحب نے وہاں باباجی سے  تقریبا تمام درسی کتب پڑھیں۔ بعض کتابیں آپ نے اپنے چچا مولانہ سید محمد اسماعیل صاحب  اور اپنے چچا زاد بھائی حضرت مولانا حافظ لطف الرحمان صاحب سے پڑھیں۔

حضرت مدنی نے آپ کو خصوصی سند عطا فرمائی

میرے والد صاحب مولانا عنایت اللہ نے حضرت مولانا  حسین  احمد مدنی کے نام ایک خط لکھا اور عرض کیا

” میں نے جملہ درسی کتابیں اور احادیث نبوی ؑ اپنے والد محترم حضرت العلامہ عبدالجمیل صاحب سے درسا پڑھی ہیں’ بعض کتابیں مولانا محمد اسماعیل صاحب اور بعض مولانا لطف الرحمان فاضل  دیوبند  سے سیکھ لیں ہیں۔ لیکن میرا ارادہ ہے کہ دارالعلوم دیوبند آکر عرصہ گزاروں۔ اور ان اسباق کو خوب ازبر کرلوں

انہوں نے ان کی درخواست کو شرف قبولیت بخش کر دیوبند آنے کی اجازت دے دی۔ 1942 ء میں حافظ محمد ادریس صاحب کے مشورے سے آپ دیوبند چلے گئے۔ حضرت مولانا مدنی سے ملاقات ہوئی انہوں نے موصوف کو چند دن اپنے پاس ٹہرایا۔ دیوبند کے علماء  علامہ عبدالجمیل صاحب سے واقف تھے۔ اس لئے حضرت مدنی صاحب نے میرے والد صاحب سے فرمایا

” جب آپ حضرت مولانا عبدالجمیل صاحب سے پڑھ چکے ہیں تو دوبارہ پڑھنے کی کیا ضرورت ہے؟”

انہوں نے والد صاحب کا بر سرعام امتحان لینے کا عندیہ ظاہر کیا اور ایک دن سینکڑوں طلباء اور بعض اساتذہ کرام کی موجودگی میں حضرت مولانا عنایت اللہ صاحب سے مختلف کتب میں امتحان لیا اور ہر  کتاب  میں امیدوار کو طاق پایا۔ حضرت مولانا مدنی صاحب بہت خوش ہوئے۔ انہیں ڈھیر ساری دعائیں دیں اور حضرت علامہ عبدالجمیل صاحب کے علمی مقام کی تعریف فرمائی۔

اس کے بعد انہوں نے اپنے ہاتھ سے دارالعلوم دیوبند کی اعزازی سند عطا فرمائی۔

مجاہدین چمرکنڈو وزیرستان کے ساتھ رابطے

والد صاحب نے جمیعت العلماء ہند، صوبہ سرحد کارکن ہونے اور خدائی خدمتگار تحریک سے تعلق ہونے کی وجہ سے دن رات آزادی کے لئے جدوجہد کی، مجاہدین بونیر اور علاقہ مہمند کی انگریز دشمن قوتوں کے علاوہ آپ نے فقیرایپی کے ساتھ وزیرستان میں خفیہ رابطہ رکھا۔ یہ اس زمانے میں ایک خطرناک کام تھا۔ لیکن جدوجہد آزادی کے پروانے  سب کچھ کر گزرنے پر تلے ہوئے تھے۔ آپ نے ہمیشہ رازدارانہ باتوں کو راز میں رکھا۔ اور قائدین تحریک نے آپ کو جو بھی کام سونپا آپنے  خلوص اور وفاداری کے ساتھ  اسے انجام دینے کی کوشش کی۔

درس و تدریس

والد محترم سیاسی تحریکوں سے وابستگی کے باوجود درس و تدریس  اور مطالعہ کتب سے بے نیاز نہ تھے۔ طورو میں علمائے دین کی ایک خاص تعداد موجود تھی۔ والد محترم کے چچا  مولانا سید اسماعیل صاحب ، مولانا لطف الرحمان صاحب  اور علامہ عبدالجمیل صاحب اپنے حجرے اور اپنے محلے کی مسجد میں طلباء کو مختلف علوم و فنون کا درس دیا کرتے تھے۔ ایک حلقہء درس والد صاحب نے بھی قائم کیا۔

جمیعت الابرار طورو

ایک دن نامور شاعر و استاد صاحبزادہ علی حیدر صاحب  اور خاکسار کسی کام کے لئے علامہ عبدالجمیل صاحب کے حجرے میں آئے اور مختلف ٹولیوں میں بٹے ہوئے طلباء کو دیکھا جو مذکورہ صدر علماء کے ارد گرد بیٹھے پڑھ رہے تھے۔ انہوں نے تجویز پیش کی کہ کیوں نہ اس درس کو ایک منظم دارالعلوم کی شکل دی جائے۔ چنانچہ انہوں نے صاحبزادہ فضل الرحمان صاحب کا تعاون حاصل کیا۔ اور محلہ خان خیلان ، طورو کے سربرآوردہ بزرگوں نے اس امر کی حمایت کی کہ مسجد خان خیلان میں جمیعت الابرار کے نام سے ایک دینی مدرسہ قائم کیا جائے۔ ان بزرگوں میں خان درویش خان، خان اعظم خان، خان اسلم خان، خان ملکی خان،اور خان تاج الملوک کے علاوہ بھی بعض لوگ پیش پیش تھے۔ مولانا محمد عنایت اللہ مدرسہ کے مدرس اور ناظم تعلیمات مقرر کئے گئے، جبکہ بیس 20 علماء کرام نے مدرسہ میں درس و تدریس کی حامی بھری۔ ان علماء کرام میں علامہ عبدالجمیل صاحب مولانا سید عبدالحنان صاحب  اور مولانا عبدالقدوس صاحب وغیرہم اپنی مثال آپ تھے۔ یہ مدرسہ تقریبا چھ سال تک قائم رہا۔ اور  دور دور سے تشنہ گان علوم دین یہاں آکر علم کی پیاس بجھاتے رہے۔

قوم و ملت کا خادم

والد صاحب نے ایک موقع پر فرمایا  

میں نے درس و تدریس  اور فلاح و بہبود کے کام اپنے اوپر فرض کئے ہیں۔

انہوں نے یہی فریضہ بڑی فراخدلی سے  اور محبت کے ساتھ ادا کیا۔ کبھی ان کاموں سے آپ  تھکے نہیں۔ موت سے چند دن قبل باوجود نہایت نقاہت اور علالت کے، آپ پیادہ چل کر طورو کے محلہ، آمو خیل کے ایک مصالحتی جرگہ میں شریگ ہوئے اور رحلت سے دو دن پہلے میری موجودگی میں ایک صاحب نے آکر آپ سے ایک  خواب کی تعبیر پوچھ لی۔ آپ نے اس خواب کی تعبیر بتاتے ہوئے زیارۃ القبور اور توحید کے مسئلے پر دھیمی اور کمزور آواز میں مختصر الفاظ میں روشنی ڈالی۔ اور قبر پر ستی اور مشرکانہ حرکات کے انجام بد سے بچنے کی تلقین کی۔

اپنے حجرے اور مسجد صدیق خیل میں

مدرسہ جمیعت الابرار طورو، اراکین مدرسہ کے سیاسی اختلافات کی بناء پر ختم ہواتھا۔ نواب صاحب طورو کی خواہش تھی کہ گاؤں کا  “مشر” ہونے کے ناطے یہ مدرسہ ان کے مسجد میں قائم ہونا چاہیئے تھا۔ اور اراکین مدرسہ کا خیال تھا کہ اگر مسجد سے باہر دارالعلوم کے لئے مخصوص اراضی ملے تو مدرسہ منتقل کر دیں گے۔ پھر اراکین مدرسہ اور مدرسین میں سے اکثر جمیعت علماء ہند صوبہ سرحد اور خدائی خدمتگار تحریک سے وابستہ تھے۔ جبکہ خان درویش خان  نے مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی۔آپ ایک قابل شخص اور سما جی کارکن تھے۔ علی گڑھ کے فاضل اور بڑے ادیب تھے۔ قائداعظم  محمد علی جناح تک ان کی قابلیت  کی شہرت پہنچی تھی۔ اور انہوں نے تقسیم سے قبل خان درویش خان کو اپنے قیمتی وقت میں سے چند منٹ ملاقات کے لئے  دیئے تھے۔ ان کے علاوہ محترم نوابزادہ عزیز اللہ خان صاحب بھی مسلم لیگ سے تعلق رکھتے تھے۔ دونوں حضرات نے مولانا محمد عنایت اللہ صاحب پر زور دیا کہ خدائی خدمتگار تحریک سے رشتہ  توڑ کر مسلم لیگ میں شامل ہو جائیں۔ بہر کیف ، سیاسی سرگرمیوں کے وجہ سے مد رسے کی تنظیم کی طرف سے بھر پور توجہ نہ دے سکے۔ مدرسہ نہ رہا۔ لیکن فرصت کی  گھڑیوں میں مولانا صاحب نے اپنے حجرے اور مسجد میں درس و تدریس کا مشغلہ جاری رکھا۔

والد صاحب جیل میں

اللہ تعالی کے رحم و کرم اور بزرگوں کی قربانیوں کی بدولت ملک آزاد ہوا اور پاکستان بنا تو حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے سیاسی اراکین ہری پور کی سینٹرل جیل میں محبوس کردیا گیا۔ میں ان دنوں تیسری  جماعت کا طالب علم تھا۔ کبھی کبھی بڑی بہن والدہ نزیر الحق مجھے پشتو زبان میں خط املا کراتی اور میں اپنے والد کو خط بھیج دیتا۔ان کی طرف سے  جواب بھی آتا۔ والد صاحب نہایت صابر ، خوش اخلاق اور غریب  طبیعت آدمی تھے۔ جیل میں رہ کر آپ نے ہمیشہ جیل کے قوانین کا پاس رکھا اور جیل کے افسروں کا جو بھی رویہ تھا، اسے برداشت کیا۔ ہری پور سینٹرل جیل میں آپ نے  کوئی  ڈیڑھ سال کا عرصہ گزار ا اور وہاں قرآن کریم کی تفسیر و تشریح پر مبنی درس دیا کرتے تھے ۔ سیاسی قیدیوںمیں کئی خوش نصیبوں نے آپ سے قرآن کریم سیکھا اور یہ لوگ زندگی بھر آپ کے معتقد رہے۔ آپ کے قیدی تلازمہ میں  احمد کاکا، محمد اسرار خان چارسدہ، سرفراز خان، قدرت شاہ کاکا وغیرہ ہم شامل تھے۔

جامعہ اسلامیہ اکوڑہ خٹک میں

والد صاحب جیل سے آئے تو آپ کی صحت بہت خراب تھی۔ ان کی غیر حاضری میں ہم سب بہن بھائی بہت اداس اور بیمار رہاکرتے تھے۔غربت و افلاس نے بھی ہمارا پیچھا کیا۔ والد صاحب کی غیر حاضری میں  میرے ماموں مولانا لطف الرحمان  صاحب ، چچا مولانا لطف اللہ صاحب اور حافظ محمد ادریس مرحوم و مغفور نے مجھے اپنے بچے کی طرح پیار دیا۔اور سید محمد باچا صاحب نے  مجھے قرآن کریم پڑھانے اور نماز سکھانے کا بیڑا اٹھایا۔اس اثنا میں جامعہ  اسلامیہ ، اکوڑہ خٹک کے جمیعت الطلباء نے والد صاحب کو سالانہ اجتماع  میں تقریر کرنے کے لئے بلایا۔ آپ نے جا کر وہاں تقریر کی۔ اور دارالعلوم میں دارالافتاء قائم کرنےکی تجویز پیش کی، جسے مولانا غلام غوث ہزاروی نے بہت پسند کیا۔ اور اسکی تائید کی۔ اگلے سال شیخ الجامعہ حضرت بادشاہ گل صاحب مرحوم و مغفور کی طرف سے قاضی عبدالرقیب صاحب آف پیر سباق، والد صاحب کے پاس جامعہ میں درس و تدریس وغیرہ کی خدمت انجام دینے کا پیغام لے آئے۔ مولانا لطف الرحمان  کے مشورے سے آپ چلے گئے ۔ 1952ء سے 1954ء تک جامعہ اسلامیہ  میں باقاعدہ درس دیا۔ ناظم تعلیمات کے حیثیت سے کام کیا۔ اور مفتی کا فریضہ  بھی ادا کرتے رہے۔ اس کے علاوہ آپ نے خلوص اور خدمت سے دارالعلوم کو بہت فائدہ پہنچایا۔ ان ایام میں جامعہ اکوڑہ خٹک عروج پر تھا۔ بڑے بڑے علماء کرا م دارالعلوم کے درسگاہوں میں موجود تھے۔ حضرت مولانہ فضل الرحمان  پشاوری، حضرت مولانہ عبدالرحمان صاحب ساکن علاقہ “حح” حضرت مولانا اماناللہ ڈاگئی  صوابی، حضرت مولانا امیر خان صاحب  آدم زئی، شامنصور کے ایک بڑے عالم عبدالرزاق صاحب بونیر کے ایک نہایت سادہ مگر عربی ادب میں طاق عالم امنور مولوی صاحب کے نام سے یاد کیا جاتا تھا، مولانا عبدالشکور صاحب مانسہرہ، قاضی عبدالرقیب صاحب، مولانا سید احمد علی شاہ صاحب اور خود شیخ الجامعہ حضرت بادشاہ گل صاحب جیسے بڑے بڑے علماء و فضلاء اور اصحاب عرفان درس دیا کرتے تھے۔ حاجی راحت گل صاحب جامعہ اسلامیہ میں نشر و اشاعت کے ناظم تھے۔ میرے والد صاحب  کے ان  تمام علماء و فضلاء سے دوستانہ تعلقات تھے۔ اور ان سب کی قدر کرتے تھے۔ میں اور میرا چچا زاد بھائی ، جماعت ششم و چہارم کے طالب علم تھے۔ اور جامعہ اسلامیہ اکوڑہ خٹک میں والد صاحب کے پاس رہتے تھے۔ والد صاحب دارالعلوم سے واجبی وظیفہ  غالبا 60 روپے ماہوار لیا کرتے تھے۔ جبکہ آپ کے مشورے سے منتظمین نے دوسرے علماء کے لئے 100 روپے  اور 300 روپے  تک کی تنخواہیں مقرر تھیں۔ والدہ صاحبہ کی سخت علالت کی وجہ سے آپ جامعہ اسلامیہ سے واپس آئے۔

مدرسہ اسلامیہ عربیہ، ہوتی مردان

  مردان کے مدرسے اسلامیہ میں اور اس کے بعد دارالعلوم اسلامیہ عربیہ خاکسار منزل ، ہوتی مردان میں والد صاحب نے  درس و تدریس اور اہتمام و انصرام کی خدمت انجام دی، اس کے علاوہ آپ مسجد خاکسار منزل ہوتی مردان میں جمعہ کا خطبہ دیتے رہے۔ محترم حاجی عبدالحکیم صاحب کے ساتھ آپ کے دیرینہ تعلقات تھے۔ لیکن جب والد صاحب  کو گھٹنوں میں درد کی شکایت ہونے لگی اور طورو سے ٹانگہ میں سوار ہو کر خاکسار منزل تک آنے جانے میں دقت محسوس کرنے لگے تو آپ نے خاکسار منزل آنا چھوڑ دیا۔ حاجی صاحب موٹر کا انتظام کر سکتے تھے لیکن والد صاحب اس قسم کے تکلفات کے روادار نہ تھے۔ نیز اب باغ مسجد میں وسعت پیدا ہو گئی تھی۔ اہل محلہ وہاں جاکر جمعہ پڑھ سکتے تھے۔

پشتو زبان و ادب سے تعلق

پشتو زبان اور ادب سے آپ کا رشتہ قدرتی امر تھا۔ عربی و فارسی میں آپ اظہار خیال کر سکتے تھے۔ اردو پر چند عبور نہ تھا۔ قومی اور ملی خدمت کی تڑپ نے پشتو زبان  و ادب سے محبت پیدا کرتی تھی۔ آپ ایک اچھے  اور منجے ہوئے خطیب تھے۔ کسی بھی دینی ، تاریخی ، اور سیاسی موضوع پر فی البدیہہ سلیس ، عام فہم اور رواں پشتو میں تقریر کرسکتے تھے۔ عربی اور فارسی بھاری بھر کم الفاظ و تراکیب کے استعمال سے احتزاز کرتے تھے۔ دراصل آپ عوام کو سمجھانا اور تعلیم دینا چاہتے تھے۔ آپ کا مقصد اصلاح احوال تھا۔ عوام پر اپنا علمی رعب جمانا  آپ کا مقصد نہ تھا۔ اس لئے آسان زبان میں بات کرتے تھے۔ آپ نے مجلہ “پختون” کے لئے مضامین لکھے۔ پشتو اکیڈمی ، پشاور کے بعض رسائل اور جرائد میں آپ کے مضامین شائع تھے۔ آپ نے خوشحال خان خٹک ، عبدالرحمان بابا، حافظ الپوری ، حمزہ شینواری، اجمل خٹک اورجدید پشتو ادب کا سرسری مطالعہ کیا تھا۔ اور شعر و ادب  سے وابستہ حضرات کے قدر کرتے تھے۔  آپ نے اخون درویزہ اور پیر روحان کے کتابیں پڑھیں تھیں۔ حافظ محمد ادریس مرحوم اور مولانا حبیب الرحمان کے علاوہ آپ نے دار منگی کی پشتو تفسیر کا مطالعہ کیا تھا۔ حالانکہ امام رازی کی تفسیر کبیر، تفسیر خازن، تفسیر ابن کثیر، بیضادی، جلالین، تفسیر حقانی اور تفہیم  القرآن کے بہ غور مطالعہ کے دور سے  تو آپ بہت پہلے گزر چکے تھے۔ اور آپ نے کئی مرتبہ قرآن کریم کی تفسیر کا مسلسل درس بھی دیا تھا۔ لیکن جب پشتو زبان میں کوئی اچھی کتاب آپ کو ملتی تو اسے ضرور پڑھتے۔

اخلاق و کردار

والد محترم کے اخلاق و کردار پر بحث کرنے کے لئے ہزاروں لوگ موجود ہیں۔ آپ عوام کے خادم اور مسلمانوں کے  بہی خواہ  مصلح اور باکردار آدمی تھے۔ میں ایک بیٹے کی حیثیت سے آپ کے بعض عادات سے بہت متاثر تھا۔ آپ صبر و استقامت کے پہاڑ تھے۔ مصائب و تکالیف برداشت کرنے میں بے مثال تھے۔ آپ کی گفتگو نہایت دل آویز تھی۔ ناشائستہ الفاظ تو آپ نے کبھی غصے کی حالت میں بھی استعمال نہیں کئے۔ کسی کی غیبت نہیں کرتے تھے۔ اختلافی دینی مسائل شائستہ الفاظ میں بیان کرتے تھے اور کسی شخص یا عالم کی ذات پر کبھی غلط الفاظ میں تبصرہ نہیں کرتے تھے۔ آپ اس بات کے حق میں نہ تھے  کہ سیاسی سٹیج پر فقہی مسائل چھیڑ کر عام آدمی کو علماء کے خلاف ابھارا جائے۔ علمی  اختلاف کو بغض اور حسد کی آگ کی لو سے بچانا پسند کرتے تھے۔ غریب اور معاشرے میں کم تر نظر آنے والے لوگوں سے آپ پیار اور محبت کرتے تھے۔ دیوانے اور نشوں کی بھٹی میں جلے ہوئے لوگوں کی اپنی بساط کے مطابق مالی مدد کیا کرتے تھے۔ مہمان نواز تھے۔ آپ کبھی “جنریشن گیف” کو شکار نہیں ہوئے۔ بوڑھے بزگوں سے لے کر بچوں تک کئی لوگ آپ کے دوست ہوا کرتے تھے۔نواب آف طورو حمید اللہ خان صاحب مرحوم بہت بڑے اور صاحب اقتدار شخص تھے، عمر میں آپ سے بہت بڑے تھے۔ بلکہ آپ تو ان کے بیٹوں سے بھی چھوٹے تھے۔ لیکن بقول والد صاحب نواب مرحوم بستر مرگ پر پڑے تھے اور باباجی کہ کہا کہ عنایت اللہ جوں ہی دہلی سے آجائے، تو اسے میرے پاس بھیج دو”

والد صاحب ان دنوں دہلی گئے ہوئے تھے ، گھر آئے تو باباجی صاحب نےنواب صاحب مرحوم کا پیغام دیا۔ آپ فورا وہاں گئے۔عصر کا وقت تھا۔ نواب صاحب نے آپ سے سفر کا حال پوچھا اور پھر فرمایا۔

تم میرے بھتیجے ہو۔ سیاست میں تم میری مخالفت کی ہے لیکن میں تم سے ناراض نہیں ہوں، مجھے معاف کردو۔ والد صاحب نے عرض کیا۔

آپ ہمارے بزرگ ہیں قابل احترام ہیں۔ میں نے اگر کبھی گستاخی کی ہو تو اسکی معافی چاہتا ہوں۔

نواب صاحب نے فرمایا۔

میں نے معاف کردیا ہے۔ آپ مجھے معاف کردیں۔

والد صاحب نے عرض کیا۔

آپ یہی چاہتے ہیں تو میں کہہ دیتا ہوں کہ میں نے آپ کو معاف کردیا۔ اللہ تعالی آپ کو معاف فرمائے۔

میرے والد صاحب کی خوش اخلاقی اور اچھے رویے کا رد عمل تھا کہ نواب صاحب جیسے بڑے شخص نے بستر مرگ پر آپ سے یوں گفتگو کرنا ضروری سمجھا۔

ہم آپ کے دو بیٹے ہیں۔ میں اور مشتاق الرحمان (م ر شفق) ہمارے والد صاحب نے کبھی ہم پر کوئی مالی یا اور قسم کا بوجھ نہیں ڈالا۔ ہمیں ہر طرح سے آزاد چھوڑا۔ اور ہماری دینی ، اخلاقی اور مالی مدد کرتے تھے۔ اپبے بڑے اور چھوٹے بھائی کے علاوہ اپنے تمام رشتہ داروں کے ساتھ آپ مشفقانہ سلوک کرتے تھے۔ بغض رشتہ داروں نے انہیں دکھ دیا تو بھی انہوں نے معاف کردیا۔ عوام الناس گواہ ہیں کہ مرحوم نے کئی باہم متحارب خاندانوں کی دشمنیوں کو دوستی میں تبدیل کرادیا۔ اور انہیں از سر تو آرام و سکون کی زندگی کا موقع فراہم کیا۔ آپ اپنی گاؤں میں سیاسی مخالفین ضرور رکھتے تھے۔لیکن میں جانتا ہوں کہ اپنے مخصوص نظریات پر ڈٹے رہنے کے باوجود آپ تمام سیاسی ورکروں  اور ہر پارٹی کی لیڈر کو عزت کی نگاہ سے دیکتھے تھے۔ آپ سیاسی مخالفت کو جمہوریت کا حصہ سمجھتے تھے۔ البتہ ضمیر فروشی کے خلاف تھے۔ آپ کی رائے یہ تھی  کہ ووٹ خریدنے والے اور بیچنے والے قوم کی خدمت نہیں کر سکتے ۔ اسلامی نظام کے لئے کام کرنے والوں کی عزت و حمایت کرنے میں آپ مستور تھے۔ اپنی پارٹی کے لوگوں کو بھی اسلام کی راہ دسکھاتے تھے۔

وفات حسرت آیات

والد صاحب ایک عرصے سے گھٹنوں میں درد کی شکایت محسوس کرتے تھے۔ آپ کے پاؤں سوج گئے۔ ہری پور جیل سے آپ جگر میں تکلیف کی بیماری لائے تھے۔ اس کے علاوہ بھی آپ کو کچھ عوارض درپیش تھے۔ لیکن صبر ہ استقامت  کے پیکر  دوا دارو کرتے رہے ۔ محترم ڈاکٹر یوسف پر آپ کو بڑا اعتماد تھا۔ او ر آپ کے  مشورے کے بغیر کبھی کسی چھوٹے بڑے حکیم یا ڈاکٹر کے پاس جانا پسند نہیں کرتے تھے۔ آپ نے والد صاحب کی اتنی خدمات کی ہیں کہ اجر اللہ ہی دے سکتا ہے۔ ہوتی مردان کے ایک بڑے ڈاکٹر نے گھٹنوں کی تکلیف کے لئے زیادہ عرصہ تک دوائی دی۔ ہم نے ان کی کلینک کے کئی چکر لگائے لیکن آخر کار انہوں نے اپنی ناکامی کا اعتراف کیا۔ چند دنوں بعد دوائیوں نے منفی اثر دکھایا۔ آپ جلدی بیماری سے دو چار ہوئے۔ انگلیاں پھٹنے لگی، پاؤں پھول گئے۔ ماہر امراض جلد کی خدمات حاصل کی گئیں۔ کئی ہفتوں بعد کچھ افاقہ ہوا۔ چند مہینوں میں قدرے آرام ہونے لگا۔ لیکن کمزوری بڑھتی گئی اور ضعف میں اضافہ ہونے لگا۔ پھر بھی آپ  تقریبا اپنا ہر کام خود کیا  کرتے تھے۔ دن میں ایک مرتبہ واحد گل کاکا  کی دکان پر حاضری دیا کرتے تھے اور وہاں گھنٹہ دو گھنٹہ بیٹھ کر وستوں سے گفتگو کرتے تھے اور گھر کے لئے سودا سلف خرید لیتے تھے۔ نماز اشارے سے پڑھتے تھے۔ کتاب کا مطالعہ ضرور کیا کرتے تھے۔ روزانہ اخبار بھی پڑھ لیا کرتے تھے۔ ملاقاتیوں اور پوچھنے والوں کو دینی مسائل کھی سمجھاتے تھے۔ وفات سے تین دن پہلے آپ کو بہار کی شکایت ہونے لگی۔ اور آخر کار بروز اتوار بوقت 7 بجکر 25 منٹ بتاریخ 25 جون 1995 میں خالق حقیقی سے جا ملے۔ وفات کے وقت آپ کی عمر 85 سال تھی۔ اور نزع کی حالت میں ہم سے گفتگو جاری تھی۔ اور اللہ تعالی سے مغفرت کے طلب گار تھے۔

اناللہ و انا الیہ راجعون

شہر میں اک چراغ تھا نہ رہا

اک روشن دماغ تھا نہ رہا

تحریر: جناب اسرار طوروی

اس آرٹیکل میں تمام خیالات اور راۓ مصنف کی اپنی ہے۔ راٸٹرزکلب کا مصنف کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

22 thoughts on “مولاناعنایت اللہ طورویؒ

  1. Shah Saud Toru

    Toru and the respectable residents of Toru are known to the world by different means
    If some one trace the history of Toru in the sub continent They will see Toru ” titled as BUKHARASANI” due to the key role of Ulama e Toru.
    I hope this article will contribute to the research world

    Reply
  2. Habiba

    i hope this article will contribute to the research world

    Toru is known as ” BUKHARASANI” in the history of sub continent
    Due to the Great Role of these Ulama

    Reply
  3. Irfan syed

    بزرگو! بہت تاریخی پوسٹ کی ھے اپ نے ۔چند چیزیں غور طلب ھے ہماری خوش بختی ھوگی اگر اپ رانمائ فرمادیں ۔اک تو طورو مایار میں جن سادات کا اپ نے ذکر کیا یہ حسنی سادات ھے تو یہ سادات یہاں کیسے اباد ھوئے کیا یہ لوگ تحریک مجاہدین کے ساتھ منسلک تھے ؟جو سید احمد شہید اور رفقاء نے چلائ تھی کیونکہ تاریخ بتاتی ھے کہ سید احمد شہید حسنی سادات تھے ۔جنکا نسب شیخ عبدلقادر جیلانی سے مل کر ام حسن تک جا لگا ھے ۔یہاں یہ بات قابل غور ھے کہ ارد گرد کے ترمذی سادات بمع کاکاخیل قوم بھی کثرت سے ھے جس سے سادات حسنی و حسینی مکس ھوگئے ہیں ۔اکثر لوگ مستورات کے رشےوں میں خود کو سادات ظاہر کرگئے ۔اک ٹیکنکل بات حسنی سادات گدہ نشینی و دیگر اہل تشیع کی مکس اپ سے پاک ھے اور نا ہی اس قسم کی چیزوں میں ملوث پائ گئ ۔حتی کہ مولانا مودودی نے کتاب خلافت و ملوکیت میں رقم طرازی بھی کی ھے امام حسن ؓؓؓکے تخت میں دلچسپی کم تھی اور صلح جوئ کی طرف مایل تھے ۔جسکا اشارہ شاہ عبدلعزیز نے اہنے رسایل میں بھی کیا ھے ۔اسکے علاوہ اپ ہم کو گڑھی امازئ و ارد گرد کے بارے میں سادات سے بھی اگاہ کیجیے گا جو اس وت اباد ھوئے ۔بحر حال ایک مختلف طرز کی پوسٹ تاریخ مردان پڑھ کے بہت اچھا لگا ۔۔۔۔۔دعا گو

    Reply
    1. Asghar Madani

      You say in your comments that Imam Hasan has no interest in “Takht” . There is a difference between taKht or Badshahat and Khilafat. Imam Hussain (R.A) fight against Yazeed not for Takht or Badshahat. These things has no value in the eyes of these great people. Yazeed was not capable of Khilafat. Hussain (R.Z) Sacrified his life for the sake of Islam not for any Takht or kingdom. You shoud take care to write about such a great people.

      Reply
  4. Syed Muhammad Waseem

    haji sb ka apne alaqe k awam k ley baut khidmat yein khaz kar Islami taleemat me…..Allah s ka hajar dein…. Us ka nam humesha sunheri alfaz se lika jayega.

    Reply
  5. Hayat Khan

    We know that these Ulema’s are the pride of our land.. We will always keep respect for them…
    Daday Azeem khalko PA qabarono di tal noor v

    Reply
  6. Ihsan uddin

    Masha Allah Allah pak darjat buland farmaye oor apne aslaf ke naqsh e qadam per chalne ke taufeeq atta farmaye.Ameen

    Reply
  7. Syed Rashid Ali

    This is a wonderful article written I immediately after the death of Mulana Inayatullah. The writer is wellknow figure as he regularly writes in different journals like Paskhun, Pasoon, Lekany etc. He has more than 10 books in his name and at current one is in press. He is natural poet. He remained Principal in a school.
    The important point regarding the writer is that he is the elder son of Mulana Inayatullah. Mulana Muhammad Inayatullah (Daji) was extremely loving, peaceful, and helpful person. He had the qualitiy of attracting people of every age, every profession and belonging to every political party. There was smile on his face.

    Reply
  8. Rahat Shah

    Very informative and authentic piece. It shows how rich our history is and historical records like these should ve used for research purposes and it should be brought upfront to the largest audience. These historical accounts of the contributions of our elders needed to be properly documented and shared with our generation and the generations next to come.

    Reply
  9. Kamrez Khan

    This article is really very informative especially for me. It is really astonished for me that Toru a town near Marden which is famous for “BAKHARA SANI” due to residence of huge number of religious scholars, I just informed about through this article. The great struggle and the various hardles that these religious scholars faced for achieving religious knowledge provides a kind of spiritual satisfaction and motivation to adapt the same way forever success. May Allah give more courage and confidence and long life to the author to write more such informative articles.

    Reply
  10. Sarfaraz Khan

    A good read well written. Keeping in view the diversified personality of Hazrat Inayatullah sb, it is difficult to conclude in such a limited space. Keeping in view the debelitating pakhtun nationalist politics and ulama standing in the opposite camps, demands that Inayatullah sb role as leader of Khudai Khidmatgar movement may be more clearly and comprehensively highlighted. Congratulations and pray for your long healthy life for enlightening the new generation with our true national leader who fought against colonial power

    Reply
  11. Ghulam Rasool Bourana

    بہت خوب، ایک معلوماتی عمدہ تحریر

    اللّہ تعالیٰ بزرگوں کو جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے آمین

    Reply
  12. Syed Aizaz

    An amazing piece..
    Such articles should be included in syllabus..indeed our land bears a glourious past..

    Reply
  13. Amin Khugyani

    Slamalikom;
    Thanks Israr Kakaje
    This historical record is very important for our generation. I heard about that Baba Jee (may Allah bless his soul ) was in the Haripur Center jail and was active in Khodie-khadmatgar, these are the memories I have from the conversation my grandfather Baba Jan(may Allah bless his soul )had with us, about Toro and his beloved family.
    My children asked me about the family and our connection to the Toro, I try to explain to them, I got a very strange feeling that history is raped its self my explanation was the same as it was my grandfather and father’s (may Allah bless there’s souls ).
    When I was a kid and Baba Jan ( you know him as Kabul Mamajee) spoke about Toro the same way people speak about the Heaven, and we had the same picture, when I visited Toro the love I got there, I understood that why he spoke the way he did.
    A. Khugyani
    Denmark.

    Reply
  14. Kamila

    Thank you Israr kaka-jee!
    Very well written informative history, very keen to read more similar articles about Toru legends to allow us having it saved for coming generations.
    Love and respect for Toru (family) in our hearts grows with our age.

    Thank you Syed Rashid Ali for sharing this link.
    Kamila Khugyani

    Reply
  15. Baha Ul Haq

    الحمد للہ بہترین تحریر ہے مولانا صاحب کی اپنی سوانح جو لکھے ہے وہ بھی شایع کیا جایے
    تو بہتر ہوگا
    ان کے ساتھ مولانا عبد الرحمن کاملپوری رح بھی ہم درس رہے ہے ایک بار سنا تھا مگر یہاں نہیں لکھا جن کے اولاد اب بھی دینی خدمات میں مصروف عمل ہے

    Reply
  16. maqsood ali

    Enayat ullah molvee sahab was not only alim and molvee but a great pashtun and social worker and solved many issues in Toru,
    Rest in peace

    Reply
  17. Shaykh Hafeezud Din

    I’m glad to say that Hadhrat Mawlana Qutub Din Ghore Gushtawi (ALayhi Rahmah) in which Hadhrat Mawlana Anaytullaah (Alayhi Rahmah) sat in his lectures is my paternal granddad.

    Reply
  18. Shaykh Hafeezud Din

    I’m glad to say that Hadhrat Mawlana Qutubud Din Ghore Gushtawi (Alayhi Rahmah) mentioned in this article is my paternal granddad, Al Hamdu Lillaah

    Reply

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *