کرونا، میڈیا اور ہم ۔ دنیا بھر میں رائے عامہ کو ہموار کرنے، آگہی پھیلانے حتی کہ جھوٹا پروپیگنڈا کرنے کے لئے بھی میڈیا کا استعمال کیا جاتا ہے اور مختلف افراد، ادارے، پارٹیاں اور ممالک اس سے مختلف مفادات حاصل کرتے ہیں۔اسی لئے جدید دور کو میڈیا وار فئیر اور میڈیا سپر میسی کا دور کہا جاتا ہے۔اس میں تو کوئی شک نہیں کہ جب سے چھاپہ خانہ اورریڈیو ایجاد ہواہے۔ ہر گزرتے دن کیساتھ نہ صرف اس میں جدت آرہی ہے بلکہ اس کی اہمیت میں بھی مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔خاص کر اکیسویں صدی میں انٹر نیٹ کی ایجاد اور سوشل میڈیا کے استعمال نے ایک ایسا انقلاب برپا کیا ہے جس کی روک تھام کسی کے بس کی بات نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کرونا وباء کی موجودہ صورتحال میں اگر ایک طر ف پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا نے کسی حد تک ذمہ داری کا ثبوت دیا۔ خاص کر الیکٹرانک میڈیا نے آگہی پھیلانے اور عوام میں شعور پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ تو دوسری جانب سوشل میڈیا نے عوام کو گمراہ کرنے میں کوئی کسرنہیں چھوڑی۔ سوشل میڈیا یوزرز نے اگر ایک طرف سازشی تھیوریز کو بڑھا چڑھاکر کروڑوں ذہنوں میں کرونا کے حوالے سے ابہام پیدا کیا۔ تو دوسری جانب خود ساختہ ٹوٹکو اور من پسند دوائیوں کو اس کا علاج قرار دیکر عوام کو شش وپنچ میں ڈال دیا۔ اس پر مستزاد یہ کہ مختلف تصویروں ویڈیوز اور لطیفوں کے ذریعے کرونا اور اس کے لئے درکار احتیاطی تدابیر کا مذاق اڑایا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج پاکستان میں کروڑوں لوگ احتیاطی تدابیر اختیار کئے بغیر روزمرہ کے معمولات میں مشغول نظر آتے ہیں جو انتہائی خطرناک ہے۔
جہاں تک پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا کا تعلق ہے۔ اگرچہ اس نے عوام میں کرونا کے حوالے سے آگہی اور شعور پیدا کرنے کے لئے تو کسی حد تک کردار ادا کیا۔ لیکن ساتھ ہی خوف پھیلانے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ جنوری سے لیکر آج تک روزانہ ہر بلیٹن میں دنیا بھر میں اموات کی تعداد گن گن کر ناظرین کو دکھانا خوف پھیلانے اور ڈپریشن بڑھانے کے سوا کیا فائدہ دے سکتا ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں اموات کی روزانہ منظر کشی نے ہزاروں افراد کو ذہنی تناو میں مبتلا کر کے نفسیاتی مسائل سے دوچار کردیا ہے۔ اس کے علاوہ سوشل میڈیا پر چلنے والی سازشی تھیوریز کا الیکٹرانک میڈیا پرکوئی مدلل جواب پیش نہیں کیا گیا۔ نہ ہی آزادانہ تجزیوں کے ذریعے اب تک عوام کے ذہنوں میں موجود شکوک و شبہات کا جواب دیا گیا جو وقت کا تقاضا تھا۔
جہاں تک پرنٹ میڈیا کا تعلق ہے اس نے کسی حد تک تواز کا دامن تھامے رکھا۔ اخبارات میں اگر ایک طرف اموات اور متاثرین کی اعداد و شمار کو بڑی بڑی سرخیوں میں شائع کیاجاتا ہے جو عوام میں سنسنی پھیلانے اور خوف پیدا کرنے کا باعث بنتا ہے تو دوسری جانب اس میں ادارتی صفحات پر تحقیقاتی کالم، تجزیاتی رپورٹس اور ادارتی نوٹ عوام کی تشنگی کا مداوا کر رہی ہے۔
تحریر: شمس مومند
کرونا۔ میڈیا اور ہم
اس آرٹیکل میں تمام خیالات اور راۓ مصنف کی اپنی ہے۔ راٸٹرزکلب کا مصنف کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
The Author is a professional writer and registered member of Writers Club Pakistan. His detail profile is available in Writers Directory.