عورت کا جسم اور غریب کی روٹی
جو استحصال میرا جسم میری مرضی، اور میرا جسم خدا کی مرضی کی آڑ میں بنت حوا کا کیا جاتا ہے کچھ اسی طرح کا استحصال کیپیٹلزم اور کمیو نزم کی آڑ میں غریب کا کیا جاتا ہے۔ نہ تو یہ میری ذمہ داری ہے اور نہ ہی میں خود کو اسکا مکلف سمجھتا ہوں کہ میں قران و حدیث یا پھر انجیل ، تورات ،زبور یا پھر باقی صحیفوں کی روشنی میں عورت کے حقوق کے حدود کا تعین کروں۔ میں خود کو مکلف نہیں سمجھتا کہ میں امیروں کی امیری کے قصیدے لکھوں یا پھر ثابت کروں کہ یہ سب اسکی محنت یا خدا کی خاص رحمت ہے۔یا پھر دلیلیں دوں کہ عزت اور ذلت دینے والا خدا ہے۔ تو پس ثابت کروں کہ غریب کو غربت دینے والا خدا پاک ہے۔مجھے خدا نے عقل و تجسس کا حکم دیاتو بس میں وجوہات ڈھونڈھتا ہوں۔ اپنی بساط کے مطابق اگر لفظ عورت کو مد نظر رکھا جائے تو بڑے ہی ٹیکنیکل انداز سے عورت کے استحصال کو بخشا جاتا ہے۔ بات ساری الفاظ کے چناؤ کی ہے۔ایک طرف وہ شدید مطالبہ ہے میرا جسم میری مرضی کے نام سے کہ بذات خود پاکستان کے 99 فیصد عورت یہ سب کچھ سوچنے سے قاصر ہیں بلکہ یہ الفاظ ان کے لئے قابل قبول نہیں۔ دوسری طرف تیرے جسم میں کیا ہے یا پھر تیرا جسم خدا کی مرضی دونوں مل کر عورت کا استحصال کررہے ہیں۔ بحث کی سمت کو ارادتا یا قصدا تبدیل کر دیا جاتا ہے بجائے یہ کہ دونوں اطراف سے عورت کی معاشی استحصال کی بات کی جائے، عورتوں کو جائیداد میں جائز حق دینے کی بات کی جائے یا پھر انکی تعلیم کی بات کی جائے، نکاح باالرضا یا پھر نکاح باالجبر کو موضوع بنایا جائے۔ یہ لوگ جان بوجھ کر عورت کےجسم کو بحث کا موضوع بناتے ہیں، جس سے عورتوں کے سارے حقوق کو متنازع بنا دیا جاتا ہے۔اور مل ملاکر عورتوں کے استحصال کو عقلی جواز دے رہے ہیں۔دوسری طرف غریب قومیں ہیں جن کی استحصال کیپیٹلزم اور کمیو نزم کی آڑ میں کیا جاتا ہے۔جان بوجھ کر ان سے ان کی غربت کے اصل وجوہات چھپائے جارہے ہیں، میں بذات خود اس بات کا قائل ہوں کہ اگر اس گلوبلائز دنیا میں اگر کوئی بھوکا سوتا ہے تو ضرور دنیا کے کسی نہ کسی کونے میں کوئی اس کے حصے کانوالہ کھا رہا ہے اور وہ اس چیز سے بے خبر ہے۔نہ ہی کوئی اس کو سمجھانے یا بتانے کی کوشش کرتا ہے کہ فلاں شخص اس کا نوالہ چھین رہا ہے۔
غریبوں کی استحصال اورسرمایہ داروں کے تحفظ میں دو فرقے سب سے آگے آگے ہیں، ایک کمیونسٹ طبقہ اور دوسرا مذہب پرست طبقہ ہے۔یہ لوگ کبھی بھی اصل حدف کو نشانہ نہیں بنائیں گے۔یہ لوگ کبھی بھی اصلی وجوہات کی طرف انگلی نہیں اٹھائیں گے۔یہ لوگ بس حسین خواب دکھاتے ہیں۔پہلا طبقہ غریب کو گاؤں کے امیر سردار وڈیرے کے گھر کے سامنے کھڑا کردیتا ہے کہ بس یہ شخص تمہاری غربت کا ذمہ دار ہے۔ یہ لوگ ریاست کے اصل وارثین کی طرف کبھی بھی انگلی نہیں اٹھائیں گے۔یہ لوگ بذات خود انقلاب کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔
دوسری طرف مذہبی طبقہ ہے جو غربت پر صبر کی تلقین کرتاہے، جو غربت کو خدا کی رضا ثابت کرتے ہیں بجائے یہ کہ ظالم کی نشاندہی کی جائے، بجائے یہ کہ ظالم کی سرکوبی کی جائے۔یہ عورتوں کی حقوق کی بات کرنے والے بذات خود ان کے استحصال کے سب سے بڑے موجب اور ظالم کے سب سے بڑے رفیق ہیں۔ دراصل ان لوگوں کے خلاف آواز بلند کرنا ہی انقلاب کی علامت ہے۔
تحریر: اکبرخان اریا
عورت کا جسم اور غریب کی روٹی
اس آرٹیکل میں تمام خیالات اور راۓ مصنف کی اپنی ہے۔ راٸٹرزکلب کا مصنف کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
A1