فیض الوہاب فیض کی شخصیت کے چند گوشے
اگر سادہ الفاظ میں شخصیت کی تعریف کی جائے تو کہہ سکتے ہیں کہ کسی انسان کی شخصیت ان کی ظاہری،باطنی،اکتسابی اور غیر اکتسابی خو بیوں کا مجموعہ ہوتی ہے ۔ان خوبیوں سے نہ صرف انسان کی ذہنی جسمانی شخصی رویے اور کردار تشکیل پاتےہیں بلکہ نظریات ،اخلاقی کردار ،افعال، جذبات اور احساسات بھی جڑے ہوتے ہیں.ہر شخصیت معاشرہ کے دوسرے افراد سے چند خاص اوصاف کی بنا پر انفرادیت رکھتی ہے.جناب فیض الوہا ب فیض بھی کچھ ایسی ہی نمایاں اور باغ و بہار شخصیت کے مالک ہیں جن کے فیض سے سینکڑوں افراد فیض یاب ہو رہے ہیں۔ وہ ایک اچھے انسان ، بہترین شاعر وادیب، مہربان و شفیق باپ اور مثالی معلم ہونے کے علاوہ ایک اچھے دوست اور عاقل مشیر بھی ہیں. فیض معتدل مزاج اور عاجزی و انکساری کا عملی نمونہ ہیں مطالعہ کے حد درجہ شوقین ہیں اور جتنے محنتی ہیں ان سے کہیی زیادہ مخلص،ایماندار،دیانتدار اور کھرے ہیں.غریب ہو کر بھی شاہوں سے بڑھ کر پر سکون زندگی بسر کر رہے ہیں. وہ حقیقت میں دستار کے آدمی ہیں۔ انہیں “د ادبی دوستانو مرکہ_مردان” کے شعراء ساتھی اور دیگر قریبی دوست اور احباب بجا طور پر “بادشاہ سلامت” اور “مشر” کے نام سے پکار تے ہیں. وہ مرکہ مردان کے بانیوں میں شمار ہو تے ہیں اور اس متحرک ادبی تنظیم کے چیئرمین اور جنرل سیکر ٹری بھی رہے ہیں. وہ بات کرنے اور دوسروں کے دلوں میں بات اتارنے کےفن سے اشنا ہیں. اتنے مخلص ہیں کہ ان کا سخت سے سخت مخالف اور دشمن بھی ان پر بھروسہ کر سکتا ہے.ان کے احباب کا حلقہ بہت وسیع ہےلیکن ان سے تعلق رکھنے والا ہر شخص یہی محسوس کرتا ہے کہ فیض صاحب سب سے زیادہ انہیں عزیر رکھتا ہے اور یہی ان کا کمال ہے.وہ بے تکلف دوست احباب کی محفلوں میں چہکنے اور ہنسنے ہنسانے کا ہنرخوب جانتے ہیں۔ تاہم ناجائز بات پر برہم بھی بہت جلد ہو جاتے ہیں.وہ توہم پرست بالکل نہیں البتہ قوم پرست،وطن پرست اور حسن پرست ضرور ہیں.ایک کھرے پختون کے ساتھ ساتھ بڑے مہمان نواز بھی ہیں ان کادستر خوان ہر وقت دوستوں کے لیے بچھا رہتا ہے. رومانی مزاج ہونے کے باوجود کہیں بھی زندگی کے تلخ حقائق اور مسائل سے چشم پوشی نہیں کرتے اور پورے عالم کی امن و سلامتی ، محبت وبھائی چارے اور اجتماعی تر قی کے دلدادہ ہیں
فیض الوہاب فیض ۸ نومبر ۱۹۶۴ کو ضلع مردان کے ایک نواحی قصبہ محب بانڈہ میں محترم حسن الماب کے گھر پیدا ہوئے.آپ کے والد بزرگوار بڑے متقی ، پر ہیز گار اور عالم فاضل شخص تھے۔ علاقے کے سبھی لوگ أن کے بڑے مداح تھے اور انہیں عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتے تھے.تعلیم کے حصول کے بعد فیض الوہاب فیض بھی درس وتدریس سے وابسطہ ہوئے اور پچیس سال تک اپنے فرائض منصبی کو بطریق احسن نبھانے کے بعد پرائمری سکول کے صدر معلم کی حیثیت سے سبکدوش ہوئےـ
ان کی چار بیٹاں اور دو بیٹے ہیں. گاؤں میں ان کی اسٹیشنری کی ایک چھوٹی سی دوکان ہے جہاں وہ فارغ اوقات میں مطالعہ کرنے کے ساتھ ساتھ کتابوں کی جلد بندی میں مصروف رہتے ہیں.ان کی ایک ضخیم اور بہترین ذاتی لائبریری بھی ہے جس سے اکثر طلبہ اور احباب مستفید ہوتے رہتے ہیں ـ فیض الوہاب فیض عام زندگی میں بڑے سادہ لوح مگر حد درجہ حساس،باضمیر،باشعور اور علاقائی کے ساتھ قومی اور بین الاقوامی حالات و واقعات سے باخبر شخص ہیں ـ وہ بڑے حاضر دماغ واقع ہوئے ہیں.اپنا معالج نہیں البتہ دوست واحباب کے لئے بہترین معالج اور طبیب ضرور ہیں.اکثر دوست ان سے صلاح و مشورہ کے لئے رجوع کرتے ہیں اور وہ ان کے مسائل کو ذاتی سمجھ کر حل کرانے کی پوری سعی کرتے ہیں. خوراک میں جو کچھ مل جاتاہے بخوش قبول کر لیتے ہیں البتہ جلیبیاں ان کی پسندیدہ سویٹ ڈش ہے. سادہ اور صاف ستھرا لباس زیب تن کرتے ہیں۔ چادر ہر وقت کندھے کی زینت بنی رہتی ہے.سردیوں میں اپنے سر کو ڈھانپنے کے لئے پکول (چترالی ٹوپی) کا استعمال کرتے ہیں.مطالعہ کے دوران عینک اکثر ناک پر جمی رہتی ہے. دوران معلمی جیب میں ہمیشہ چاقو رکھا کرتے تھے مگر بچوں کو ڈرانے کے لئے نہیں بلکہ ان کے قلم بنانے کے لئے ـ پانی سے بہت ڈرتے ہیں اور موسم گر ما میں بھی بغیر عذرِ شدید کے نہیں نہاتےـ
فیض الوہاب فیض ایک اچھے شاعر و ادیب ، سنجیدہ نقاد ،ماہر تعلیم اور بہترین مترجم ہیں.پشتو شاعری میں ان کے دو شعری مجموعے” اظہارونہ” اور ” پہ سل ژبو خاموشہ” منظر عام پر آ چکے ہیں.جن کو قبولیت عام کی سند مل چکی ہے اور کئی ایوارڈز کے مستحق قرار پائے گئے ہیں .فیض کی طبیعت کی ما نند ان کی غزل میں بھی سنجیدگی اور متانت پائی جاتی ہے. ان کی شاعری روشن فکری کی غماز ہے جس میں غم دوراں اور غم جاناں کا حسین امتزاج بدرجہ اتم موجود ہے. وہ ایک استاد اور کہنہ مشق شاعر ہیں اور فنی و فکری لحاظ سے ان کی شاعری قابل رشک اور قابل تقلید ہے. نثری ادب میں تنقید فیض صاحب کا پسندیدہ میدان ہے. اس سلسلے میں ان کے تنقیدی مضامین کا مجموعہ”ادب او تنقید”ان کی بالغ و مثالی تنقیدی بصیرت کا منہ بولتا ثبوت ہے.اس کتاب کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اسے ایم فل کورس کے نصاب میں شامل کر لیا گیا ہے. ادبی اور صحافتی خدمات کے سلسلے میں انہیں ” مر کہ ” رسالہ کے بارہ ایڈیشن کے شریک مدیر اور ” پاڅو ن” مردان کے بانی مدیر کا اعزاز حاصل ہے.اس کے علاوہ خیبر پختونخوا کے ٹیکسٹ بک بورڈ کے پشتو نصاب میں بھی فیض صاحب کی خدمات،تجاویز اور ماہرانہ آراء کو قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے.وہ کم لکھتے ہیں مگر خو ب لکھتے ہیں. اللہ تعالے ان کو باعزت لمبی زندگی عطا فرمائے۔ آمین
تحریر: نو رالرحمان سحر
اس آرٹیکل میں تمام خیالات اور راۓ مصنف کی اپنی ہے۔ راٸٹرزکلب کا مصنف کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
The Author is a professional writer and registered member of Writers Club Pakistan. His detail profile is available in Writers Directory.
ځلوبۍ ئې هم خوښې وی خو رسګولې ئې ډېرې خوښې وی او ډېرې په شوق ئې خوری….
بہترین.شخصیت نگاری ھے.فیض کے بارے میں جتنی ضروری اور معلوماتی باتیں تھیں ان سب کا اچھے انداز میں اخاطہ کیا گیا ھے..داد دیتا ھوں سحر صاحب کو
عمده تحرير ہے جناب فيض الوہاب فيض کے متعلق ۔اللّہ فيض اور آپ کو صحت اور سلامتی دے آمين
! پیارے دوستو
آپ سب کی پسندیدگی کا بہت بہت شکریہ.خوش رہو.س
بہت خوب ڈاکٹر نور الرحمان سحر صاحب ! یقیناً آپ نے استاد فیض الوھاب فیض کے شخصیت کے مختلف پہلووں کو بہت شائیستہ انداز میں تحریر کیا ھے ۔ واقعی وہ بیک وقت شاعر، ادیب اور نقاد ھونے کیساتھ کیساتھ بہت اعلٰی و ارفع خوبیوں کا مالک بھی ھے ۔ الله پاک سے دُعا ھے کہ انھیں صحتِ کاملہ کیساتھ دراز زندگی بھی عطا فرمائے ، امین یا رب العالمین
Buhut hi achi tehreer Hy waqi faiz Sahib huma jehat shakhsiat k Malik hy
بہترین اور تحریر جس کی جتنی بھی تعریف کی جاۓ کم ہوگی
بہترین اورجامع تحریر جس کی جتنی بھی تعریف کی جاۓ کم ہوگی
بهترین تحریر ہے سر داد دیتا ہوں بلاشبہ فیض صاحب ایک اعلا نقاد ، شاعر اور ادیب ہے اوراس کے علاوہ ایک اچھے انسان اور شفیق استاد بھی بھی ہے
علم کا بحر بیکراں۔۔۔ اور اعلیٰ اخلاق کا عملی نمونہ ۔۔۔ میرا مرشد میرا پیر ۔۔۔ ہر فن مولا۔۔۔ جیکآف آلٹریڈ۔۔۔ لو یو فیض الوھاب صاحب۔۔۔
بہترین.شخصیت نگاری ھے.فیض کے بارے میں جتنی ضروری اور معلوماتی باتیں تھیں ان سب کا اچھے انداز میں اخاطہ کیا گیا ھے..داد دیتا ھوں سحر صاحب کو
well written