جنوبی ایشیاء میں موسیقی کے مستند چار بڑے گھرانوں,شام چوراسی،گوالیار،کریانہ اورپٹیالہ میں آج پٹیالہ گھرانہ میں سے دو شخصیات استاد غلام علی خان(سنگر)اور استاد شاہ ولی افغان کے متعلق۔۔۔مختصر مگر جامعہ تحریر۔۔۔۔
استاد غلام علی انیس سو چالیس میں استاد دولت علی جعفری کے ھاں سیالکوٹ(پنجاب پاکستان) کے موسیقار برادری میں پیدا ھوئے۔استاد دولت علی جعفری خود گائیک اور سارنگی نواز تھے۔لیکن انکی خواھش تھی کہ انکا بیٹا استاد بڑے غلام علی خان کی طرح نام اور کام کو اپنا حاصل بنالے۔اسی تہیہ کے تحت انکے والد نے اپنے بیٹے غلام علی کو استاد بڑے غلام علی خان سے موسیقی کی تعلیم و تربیّت حاصل کرنے لاھور لائے۔جب انکی عمر پندرہ برس تھی
استاد بڑے غلام علی خان جن کا تعلق پٹیالہ گھرانہ سے تھا۔اور اس وقت اپنے کام اور نام کے عروج پر تھے۔انکے تین بھائ استاد برکت علی خان،استاد مبارک علی خان اور استاد امانت علی خان کا شمار بھی پٹیالہ گھرانہ کے بڑے معتبر اساتذہ میں شامل ھے۔غلام علی کو یہ اعزاز حاصل ھے کہ انھیں استاد بڑے غلام علی خان سمیت انکے دوسرے بھائیوں سے بھی موسیقی کے رموز ،خیال ٹھمری غزل جیسے اصناف۔ سیکھنے سمجھنے کو ملے۔جسکا تجزیہ بہ آسانی انکی گائیکی سے لگایا جا سکتا ھے۔پٹیالہ گھرانہ گائیکی،سرُ اور تان پلٹہ جیسے اصناف کی ادائیگی میں ایک منفرد مقام اور شناخت رکھتی ھے یہ بات جان کار لوگ سمجھتے ھیں۔اور جسکا مخلصانہ اظہار بھی مناسب موقع پر انہوں نے کیا ھے۔یہاں یہ بات بھی پہلی بار ریکارڈ کا حصہ بناتا چلوُں کہ دیگر کچھ لوگ بھی ھیں جنکی محنتیں غلام علی کی تعلیم موسیقی میں شامل ھیں اُن میں استادباباشیلہ کا نام شامل ھے۔خاکسار کو بھی استاد بابا شیلہ سے شرفِ موسیقی حاصل ھے۔اسکا عملی مظاھرہ اس وقت ھوا۔جب غلام علی اور انکے ساتھی طبلہ نواز استاد طاری کی علیحدگی کے سبب کراچی میں مقیم طبلہ استاد ارشد اور غلام علی کی جوڑی بن گئ۔انجمن ماسیقاران کراچی کے زیرِانتظام “انیس سو چوراسی،پچیاسی” میں غلام علی کیلئے موسیقی کی نشست رکھی مذکورہ تقریب میں طبلہ استاد بشیرخان کالیہ”آج کل NAPA کراچی میں طبلہ کے ٹیچر ھیں” نے غلام علی کے ساتھ طبلہ پر سنگت کی تھی۔ انجمن اس نوعیّت کی تقاریب کا اھتمام کرتی رھتی۔استاد فتح علی خان “پٹیالہ”،سولو ھارمانیم نوازاستاد صادق پنڈی ،استاد بدری زمان قمر زمان(معارف نغمات اور متعدّد کتابوں کے مصنف)استاد مُحمّدجُمّن،سولو طبلہ پلیئر استاد میاں شوکت حسین،سولو ھارمونیم نواز استاد حبیب الّدین خان،استاد بھورے خان،استاد فتح علی اور حمیّدعلی,(گوالیار)”المعروف حیدرآبادی سندھ”استاد طفیل نیازی،۔جیسے ماھرینِ موسیقی کو یہاں اپنے فنی و علمی مظاھرہ کرنے کے مواقع فراھم ھوۂے۔ تب غلام علی کی بابا شیلہ سے شاگردوں جیسا احترام دیکھنے کو ملا۔غلام علی ایّامِ بچپن میں حیدر آبا کچھہ قلعہ امام بارگاہ “مولاعلی کے قدم”میں مرثیہ،منقبت،رباعیات عقیدت و احترام کے نذرانہ اپنی پر اثر ترنّم میں پیش کرتے تب سے گُنی اور دور اندیش حضرات کہتے کہ یہ بچہ آنے والے وقتوں میں بہت بڑا مقام حاصل کرے گا،اور وقت نے وہ اندیشے سچ ثابت کریئے۔ استاد بڑے غلام علی خان کی شاگردی میں غلام علی کے سفرِ موسیقی کا آغاز ھوتا ھے۔انیس سو ساٹھ میں ریڈیوں پاکستان لاھور سے اپنے فنی کیریئر کا آغاز کیااورآج پوری دنیامیں خاص طور پر غزل گائیکی کے حوالے سے غلام علی کی حیثیت سے جانے جاتے ھیں۔
استاد غلام علی کا خاصہ یہ رھا کہ انہوں نے پٹیالہ گائیکی کے اسلوب کو اپنانے کے ساتھ ساتھ شاعری کے انتخاب میں قتیل شفائ،مولانا حسرت موحانی،گلزار جیسے اعلیٰ پائے کے شعراء کا انتخاب کیا اور اسے کلاسیکی آھنگ میں غزل کے سانچھے کے مناسبت سے سروں اور لے کاری سے مرّتب کیا۔اسی انداز نے غلام علی کو منفرد بنایا۔اور آج بھی بلخصوص جنوبی ایشیاء میں غلام علی کی گائیکی کو پٹیالہ گھرانہ کا نایاب نمونہ تصوّرکیا جاتا ھے
استاد شاہ ولی افغان سنہ انیس سو پچاس کے عشرے افغانستان میں پیدا ھوئے۔انیس سو اسّی کے افغان انقلاب میں ھجرت کرکے پاکستان کے شہر پشاور میں اپنے اھلُ عیال کے ساتھ آباد ھوئے۔چونکہ افغانستان میں ٹیلیویژن پر موسیقی کے متعدّد پروگرام کرکے ھنر مند کی حیثیت سے اپنی شناخت بنا چکے تھے لیکن علمِ موسیقی کی طلب اور تشنگی نے انھیں پشاور کے زرخیز سرزمین پر موسیقی کے معتبر اساتذہ استاد بختیار(رباب نواز)استاد قاضی حبیب،استاد سلطانی،استاد جعفر جیسے قابلِ قدر اشخاص سے روشناس کرایا۔استاد شاہ ولی افغان نے مجموعی طور پر ھر ایک سے استفادہ حاصل کیا لیکن استاد نوّاب علی خان سے باقاعدہ رسمِ شاگردی کی۔
استاد نوّاب علی خان پٹیالہ گھرانہ میں استاد عاشق علی خان کے خیبر پختونخواہ میں پہلے شاگرد تھے۔
۔معروف غزل گو گائیکہ میڈم فریدہ خانم اور استاد نواب استاد عاشق علی خان کے ھمعصر شاگرد رھے۔استاد شاہ ولی افغان نے استاد نوّاب علی سے پٹیالہ گھرانہ کے اندازِگائیکی جس میں تان پلٹہ خیال گائیکی،ٹھمری،جیسے مشکل ترین اصنافِ موسیقی شامل ھیں سیکھی۔اور اپنی نرم ملائم سُریلی آواز میں پٹیالہ گھرانہ کے گائیکی کو پروان چڑھایا۔
فطری طور پرایک چیز استاد غلام علی اوراستاد شاہ ولی افغان میں قدرِمُشترک ھے۔کہ استاد شاہ ولی نے بھی سروُں کے مناسبت سے آمیزش کے ساتھ ساتھ پشتو زبان میں چوٹی کے شعراء غنی خان،خوشحال خان،رحمت شاہ سائل جیسے کے کلام کو ٹھمری اور غزل آھنگ کے مختلف تال جن میں مغلئ سات مانترہ،چنچل چودہ مانترہ،دادرہ چھ مانترہ،وغیرہ میں پیش کیا،پشتو ادبی موسیقی میں اس قسم کے تجربے کو بہت سراھا گیا جس کی وجہ سے استاد شاہ ولی افغان کو خاطر خواہ پذیرائ ملی اور اسی بدولت انھیں ایک منفرد مقام حاصل رہا۔موسیقی کے علمی تقاضے اور پٹیالہ گھرانہ کی رغبت کی وجہ سے استاد غلام علی اور استاد شاہ ولی افغان میں کافی قُربت پائ گئ۔ ریاستِ دیر کے نوّاب شہاب الدین کے ھاں جوبذاتِ خود بھی موسیقی کاشعور رکھتے تھے اور استاد نواب علی خان کے شاگردوں میں تھے۔ استاد غلام علی،استاد مہندی حسن،میڈم فریدہ خانم اور استاد شاہ ولی افغان کی اکثر موسیقی کی پر کیف نشستیں ھوتی۔جس دوران شفاف موسیقی روحانی کشش سے ایک دوسرے کو لاشعوری اور شعوری طور منتقل رھنے کا عمل جاری رھتا۔استاد شاہ ولی افغان کا شمار پشتو موسیقی میں صفِ اؤل کے گلوکاروں میں ھوتا ھے پوری دنیا میں جھاں بھی پختون آباد ھیں استاد شاہ ولی افغان کو بحیثیت ھنرمند جانتے ھیں یہ بہت بڑے نصیب کی بات ھوتی ھے۔
پٹیالہ گھرانہ کے دو اھم شخصیات ایک کا تعلق پنجاب پاکستان اور دوسرے کا افغانستان سے۔دونوں ہی موسیقی کے ایک گھرانہ سے تربیّت یافتہ۔استاد غلام علی نے اردو پنجابی میں خاص طور پر اوراستاد شاہ ولی افغان نے پشتو اور فارسی زبانوں میں پٹیالہ گھرانہ کے اسلوبِ موسیقی کو اپناتے ھوئے کمال کی حدیں چھو لیں ،دونوں کی بنیادی تعلیمِ موسیقی ایک ھی ھے لیکن ایک کی پیش کردہ موسیقی میں پنجاب کی چاشنی اور دوسرے میں افغان مٹی کی تاثیر۔
تحریر و تحقیق
آپ کا اپنا:-پروفیسر اے۔آر۔انور
اس آرٹیکل میں تمام خیالات اور راۓ مصنف کی اپنی ہے۔ راٸٹرزکلب کا مصنف کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
Bhoot achay zabaer10 our malomat afza tehreer hay Allah aap ko sehat o mean naseeb katy ameen.