غنی خان – حیات و خدمات

Ghani Khan
اباسین یوسفزئی

    غنی خان – حیات و خدمات

Ghani Khan (1914-1996 AD) is one the most celebrated poets of Pushto literature. He stings beautiful words into poetry which are not only loaded with lofty thoughts and ideas but also pregnant with meanings. With his matchless and unique style, he introduces a completely new culture of writing and establishes a new school of thoughts after Khushal Khan Khattak era. This research paper highlights the life experiences and intellectual caliber of Ghani Khan, mostly visible in his art. This attempt is made for the readers of Urdu language to get informed about the unique poetry of Ghani Khan who is also known as “Mad Philosopher”.

عظمت پختون جمالیاتی حس اور صوفیانہ خیالات کی وجہ سے قائم و دائم ہے۔گلشن پشتو میں انواع و اقسام کے پھولوں کی بہار ہے۔ اگر چہ پشتو شاعری کا کل سفر چودہ پندرہ سو سال پر محیط ہے اور اس سے پہلے کے ادوار تاریکی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔معلوم شعراء کے قافلہ رنگ و بو میں سب سے پہلا نام امیر کروڑ 756ء کا ہے، جن کی شاعری کے چند ہی نمونے ہاتھ لگے ہیں۔ ان کے بعد آنے والوں میں مضوعات اور فن کے حوالے سے جتنے بڑے بڑے نام سامنے آتے ہیں، انکے تعداد بے شمار ہے مگر درحقیقت پشتو شعری ادب کی عالیشان عمارت کے چار بنیادی اور دیو ہیکل ستون بابائے پشتو حضرت خوشحال خان خٹک، شاعر انسانیت عبدالرحمان مومند المعروف رحمان بابا، امیر المتغزلین حضرت امیر حمزہ شنواری اور لیونی فلسفی ( مجذوب فلسفی) عبدالغنی خان کو سمجھا جا سکتا ہے۔

خوشحال خان خٹک کو اولیت کا درجہ حاصل ہے۔انہوں نے سترہویں (17) صدی عیسوی میں جو خیالات پیش کیے اور جو فنکاری کی اب تک اپنی مثال آپ ہے۔ان کی عظمت مسلم ہے۔

رحمان بابا کے کلام کے شیرینی سادگی تین سال گزرنے کے باوجود تازہ ہے۔خواص کو باالخصوص اور عوام کو باالعموم ان کا کلام ازبر ہے۔ ہر عالم عامی انکے اشعار کی تاثیر سے دامن نہیں بچا سکتا۔رحمان بابا جتنی شہرت نہ کسی دیکھی نہ سنی۔

پشتو ادب کا تیسرا ستون بیسویں صدی میں جنم لینے والےجہد مسلسل سے عبارت حمزہ شنواری ہیں۔ انہوں نے قدامت اور جدت کے درمیان پل کا کام کیا۔ان لئے ان کو متقدمین کا مقتدی متاخرین کا امام مانا گیا۔پختون معاشرے کی اقدار و روایات اور تاریخ اور ثقافت کو خلوص اور استکاری کے ساتھ غزل میں ایسے سمولیا کہ نئی نئی اصطلاحات، تشبیہات اور استعارات نے جنم لیا۔

پشتو ادب کا چوتھا ستون غنی خان کے نام سے موسوم ہے۔ غنی خان نے فنی و فکری دونوں لحاظ سے نہایت ہی جدت و ندرت کا مظاہرہ کیا۔انہوں نے روایت سے ہٹ کر فلسفہء تصوف پیش کیا اور اپنی شاعری میں ہر اس موضوع کو جگہ دی جسکی ضرورت محسوس ہوئی۔استاد بینوا کے نام ایک خط میں غنی خان خود لکھتے ہیں۔

ترجمہ : “میرا خیال ہے کہ زندگی میں شاعر کا مقصد اور ہدف مبلغ اور مولوی سے یکسر مختلف اور الگ ہے۔ اور اس لئے کہ اساسی اور بنیادی طور پر انسان ایک حیوان ناطق ہے۔وہ خوراک ، جنسی تسکین اور استراحت کی ضرورت رکھتا ہے اور کسی چیز کی نہیں۔ یہ ہم شعراء کا فرض خاص ہے کہ انسان کی توجہ اسکی زندگی اور ہستی کے اعلی و ارفع مقاصد کی طرف مبذول کرائیں۔ جہاں یہ ممکن ہے اپنی تکامل کا انعکاس دیکھیں۔ اپنی ابدی محبوبہ کے حسن و جمال کا نظارہ کرسکیں۔میرا خیال ہے کہ شاعر فکر و خیال اور قول و عمل کے ڈگر پہ حسن و جمال کے پرستش کرے اور انسان کو اس پر مجبور کرے کہ وہ اپنے خواہشات کے پراگندہ ماحول سے نکل کراپنا منہ اپنے باع عدن کی جانب پھیر دے۔ یہ کام پند و نصیحت سے نہیں ہوتا۔مجھے وہ لوگ برے لگتے ہیں جو مجھے نصیحت کرتے ہیں۔

اگر ہم دل کی گہرائیوں سے حسن وجمال کی قدردانی کے لئے تیار ہو جائیں جہاں تک زندگی میں عذات و مصیبت ، درد اور غم کا تعلق ہے، تو میرے خیال میں ہم کو حسن و جمال کی تخلیق کے لئے اسکی قیمت ادا کرنا لازمی ہے۔ہر فنکار یہ ہوشر با قیمت ادا کرتا ہے، اور ان میں خوش قسمت ملتے ہیں جو حسن ، فتخ اور دلربائی کے چند بوند باسکتے ہیں۔ آرٹ میں حسن ، دلکشی اور دلرائی جنم لینے کے لئے زندگی کے درد و غم کو گلے لگانا پڑتا ہے”۔

غنی خان کے مندرجہ بالا تحریر سے ان کی شاعری کی عظمت کا پورا پورا ادراک ملتا ہے۔ان کی شاعری کی کمال اور جمال و جلال سب اس خط میں پوشیدہ ہے۔

مرحوم ماسٹر عبدالکریم لکھتے ہیں

ترجمہ: ” غنی خان کی شاعری کے تین ادوار ہیں۔ پہلا دور لڑکپن کی شاعری کا ہے۔دوسرا دور یورپ اور امریکہ کا طواف کرنے کے بعد کا ہے، جس میں فہم و فراست میں اضافہ ہوا۔انکا تخیل پرواز کرنے لگا۔یہاں پر غنی خان خیال کے گھوڑے پر سوار ہے۔ مگر لگام قابو میں ہے۔ایک صدا ہے سوز و ساز سے بھری ہوئی، ایک سرور ہے غزالی اور مدہوش آنکھوں کا۔ اس دور میں غنی خان کا اپنا مسلک بھی ہے۔کہتے ہیں کہ غالب اور ٹیگور کسی راستے پر جا رہے ہیں۔ غنی خان کو سامنے سے آتے ہوئے دیکھا تو دونوں نے ایک دوسرے کے جانب معنی خیز انداز سو دیکھا”۔

یہ غنی خان کے تصور کا تیسرا دور ہے جب خیام کی مستی کو غالب کی بیباکی اور ٹیگور کی رنگینی بخشی۔

مرحوم استاد گل باچا الفت غنی خان کی شاعری کو یوں سراہتے ہیں۔

ترجمہ: “غنی خان کے اشعار میں جو چیز مجھے سب سے زیادہ پسند ہے وہ فکر و خیال کی آزادی اور تقلید سے سرکشی ہے۔ ان کے رندانہ مقام تک کسی کی رسائی نہیں ہوسکتی اور وہ جو کچھ وہ اپنی عظیم سر شاری کے عالم (برکت سے) مجھے کہتے ہیں دوسروں کے بس کا روگ نہیں”۔

غنی خان بذات خود آرٹ کا ایک مدرسہ ہے۔انہوں نے اپنے گلشن ہنر کے پودوں کی شاخ تراشی نہیں کی۔ ان کا خیال تھا کہ پختون باغ میں گلاب کے پودے کو اپنی فطری ارتقاء کے لئے چھوڑنا چاہیے۔

محترم صادق اللہ خان لکھتے ہیں

ترجمہ: ” غنی خان کی شاعری کی مثال ہوا کی ہے، جسکو نہ روکا جا سکتا ہے نہ پکڑا جا سکتا ہے اور نہ تولا جاسکتا ہے۔ خیال رہے کہ غنی خان کی شاعری کو اپنی ترازو میں تولنے کی کوشش مت کرو۔اس لئے کہ ہماری ترازو نا تو اسکی وسعت کا احاطہ کر سکتا ہیں اور نا تو اسکی وزن برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں”۔

محترمہ سلمی شاہین نے غنی خان کی قوس قزخ کےرنگوں سے تشبیہ دی ہے جو ہر شخص کے لئے اپنے انداز سےدعوت نظارہ دیتے ہیں۔

غنی خان نے اپنی من موہنی شاعری کے ذریعے پشتو ادب کی دنیا میں نہ صرف انقلاب برپا کیا بلکہ فن وفکر کے لحاظ سے نئی حیات بخش کر نئی روایات کی داغ بیل ڈالی۔فلسفے کے نہایت ثقیل او ر خشک مضامین کو نہایت آسان، رواں، دلچسپ اور عامیانہ پیرائے میں بیان کیا۔ عوامی زبان میں حیات و ممات مسائل کو فلسفیانہ اور عالمانہ انداز میں حل کرنے کا جادو صرف غنی خان کے پاس ہے۔ ایک اعلی پائے کا صوفی ہونے کے ساتھ ساتھ قوم پرستی انسان دوستی کے جذبات کو اپنے کلام کا موضوع بنایا۔

حالات زندگی

غنی خان نے 82 سال کی عمر پائی۔وہ 1914ء سے لیکر 15 مارچ 1996ء تک رہے۔ پشتونوں کے سیاسی دیوتا، عدم تشدد کے فلسفے کے داعی اور مشہور زمانہ تحریک خدائی خدمتگار کے بانی فخر افغان خان عبدالغفار خان المعروف باچاخان کے بڑے صاخبزادے تھے۔انکی پیدائش چارسدہ کے مشہور گاؤں اتمانزئی میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم پشاور کے نیشنل ہائی سکول سے حاصل کی اور خدائی خدمتگار تحریک کے قائم کردہ مدرسے آزاد ہائی سکول اتمانزئی سے میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد جامعہ ملی دہلی کا رخ کیا۔

بچپن میں غنی خان بے حد ذہین تھے۔ایک بار ممتاز عالم حسین احمد مدنی اتمازئی تشریف لائے تو غنی خان نے عربی زبان میں 20 منٹ دورانیہ کا خطبہء استقبالیہ پیش کیا۔ مدنی صاحب نے ان کو گلے لگایا اور ماتے پر بوسہ دے کرباچا خان سے دریافت کیا کہ یہ عربی بچہ کون ہے؟ بابا نے ہنس کر جواب دیا یہ میرا بیٹا ہے۔

ایک ملاقات میں غنی خان سے سنا گیا کہ قران پاک کے پندرہ پارے انہے خفظ تھے جبکہ ان کے چھوٹے بھائی عبدالولی خان خافظ قران تھے۔

1928ء میں غنی خان نے ہندوستان کو خیر اباد کہا اور انگلستان کا رخ کیا۔وہاں فن مصوری کی مہارت حاصل کی مگر اپنی خوبصورتی اور مردانہ وجاہت ان کے لئئے وبال جان بن گئی اور مجبور ہو کر والد صاحب کے حکم پر 1931ء میں کیمیکل انجنیئرنگ کی تعلیم حاصل کرنے امریکہ پہنچے مگر والد فرنگی سامراج کے خلاف نبرد آزما ہونے کیوجہ سے قید و بند اور جائیداد کی ضبطی کا شکار ہوگئے تو تعلیمی اخراجات بروقت نا پہنچنے کی صورت میں دوبارہ ہندوستان کا رخ کیا۔ 1932ء میں ایک بار پھر برطانیہ پہنچے مگر محروم لوٹنا پڑا۔والد محترم کی خواہش تھی کہ غنی خان “جامعہ الازھر ” سے فارغ التحصیل ہو لیکن غنی خان یورپ کے زیر اثر تھے۔والد نے یہی اثر ختم کرنے اور سادگی کی تعلیم دینے کی غرض سے ان کو جواہر لعل نہرو کے پاس آلہ اباد بھیج دیا۔1935ء میں نہرو صاحب کی گرفتاری کی وجہ سے غنی خان نے گولہ یوپی کے شوگر ملز میں سپر وائزر کے حیثیت سے ملازمت اختیار کی اور چیف کیمسٹ کے عہدے تک ترقی پائی۔1940ء میں تخت بھائی شوگر ملز میں ٹیکنیکل فیکٹری منیجر کے عہدے پر کام کیا۔مگر والد صاحب کی سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے 1943ء میں ملازمت کو خیر اباد کہا۔

آپ 1944ء کے عام انتخابات میں ہندوستان کے مرکزی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے اور قیام پاکستان سے کچھ عرصہ قبل فرنگی حکومت سے آزادی حاصل کرنے کے لئے ایک تنظیم “زلمے پختون ” نوجوان پختون) قائم کیا۔1947ء سے لیک 1954ء تک نظر بند رہے۔یہی سات سال انکی شاعری کے لئے بہت نیک فال ثابت ہوئے۔ د پنجرے چغار (شکست قفس) پانوس (فانوس) اور دغنی پلوشے (غنی کے شعائیں) انکے مجموعےہائے اشعار ہیں جو بعد میں افغانستان حکومت کی جانب سےکلیات کی شکل میں شائع ہوئے۔

خدائی خدمتگا ر تحریک کی جانب سے شائع ہونے والے رسالے “پختون “میں ابتداء سے ان کی نظمیں اور نثر پارے ” د لیونی گڈے وڈے” (دیوانے کی خرافات) کے عنوان سے شائع ہوتے رہے۔اس کے علاوہ غنی خان کی ایک انگریزی کتاب “دی پٹھانز” بھی ہے جو پختونوں کی تاریخ و تہذیب اور ثقافت و نفسیات پر مبنی ایک اعلی پائے کی تحریر ہے۔ جس کو اب تک بے حد پزیرائی ملی ہے۔ اردو میں “خان صاحب ” بھی ان کا قابل قدر فن پارہ ہے۔کچھ عرصہ قبل فرنٹیئر پوسٹ گروپ نے ان کی شاعری کی کلیات “د غنی لٹون” (غنی کی تلاش) کے نام سے اور دیگر کتب کی دوبارہ اشاعت کا کارنامہ سرانجام دے کران کے کام کو مخفوظ کرلیا۔

غنی خان نہ صرف پشتو کے بے بدل شاعر ہیں بلکہ ایک صاحب طرز نثر نگار ، مصور، نکاش اور سنگتراش بھی ہیں۔ انکی تخلیقات میں انفرادیت اور جدیدیت کا پہلو نمایاں ہے ۔ ہندوستان میں رابندر ناتھ ٹیگورکی بین الاقوامی یونیورسٹی شانتی نکیتن میں قیام کے دوران انہوں نے مذاق میں کچھ دوستوں کے کیر ی کیچر شبیہیں اور کارٹونز بنا لئے تو ٹیگور صاحب نے دیکھ کر اس فطری مصور کے کام کی بہت داد دی۔یونیورسٹی میں اس حوالے سے بھی غنی خان خاصے مقبول رہے۔بعد میں ان کی فن پارو کی کئی بار نمائش بھی ہوئی اور آرٹ میں انکے جداگانہ اور منفرد طرز ملکی اور غیر ملکی فنکاروں نے بہت سراہا۔ ان کے ادبی تخلیقات کا جائزہ لینے سے پہلے ان کے شخصیت کے کچھ اور پہلو آشکار کرنا مناسب سمجھتا ہوں۔شاید ان واقعات کی اتنی ادبی وقعت نہ ہو مگر ان کی شخصیت کو سمجھنے میں پہت آسانی ہو سکتی ہے۔

“ایک دن گداگر غنی خان کی خدمت میں اپنی بے بسی ناتوانی کی فریاد لے کر حاضر ہوا اور مالی مدد کی درخواست کی۔غنی خان نے حسب استطاعت مدد کی تو فقیر نے غرض کیا کہ اس سے قبل میں آپ کے بھائی ولی خان کے پاس گیا تھا مگر انہوں نے کچھ نہیں دیا۔غنی خان نے ہنس کر کہا ۔ وہ ولی ہے اور ولی، اللہ سے مانگتا ہے۔ اور میں غنی ہوں اور لوگ غنی سے مانگتے ہیں”۔

ایک اور واقعہ ملاحظہ ہو

ایک دفعہ تبلیغی جماعت کے کچھ لوگ غنی خان کو دعوت دینے ان کے حجرے پہنچ گئے اور خان کو نصیحت کرنے لگے کہ اللہ کی راہ میں نکلو یہ بہترین راستہ ہے اور لغویات میں اپنا وقت ضائع کرنا دانائی نہیں ہے۔غنی خان نے اپنے ملازم کو اشارتا کہا کہ ان سب کو شراب پیش کرو۔جب شراب لائی گئی تو غنی خان نے امیر صاحب کو پینے کے لئے کہا۔امیر صاحب نادم ہوئے اور کہا خان صاحب ہم تو آپ کو لغویات سے منع کرنے کی غرض سے آئے ہیں یہ کیا غضب کر رہے ہیں۔ ہمیں شراب کی پیشکش کر رہے ہیں۔ غنی خان نے پستول تان کر امیر صاحب سے کہا کہ اٹھا لو جام۔

امیر صاحب نے سراسیمگی کی عالم میں جام اٹھالی مگر جب پیالہ منہ کے قریب لے جا رہا تھا تو غنی خان نے کہا ۔ مت پیئو۔امیر صاحب کی خوشی اور حیرت لو دیکھ کر غنی خان گویا ہوئے کہ پہلےاللہ تعالی کے دین کے لئے قربان ہونا سیکھ لو ۔ پھر دوسروں کو نصیحت کرتے پھرو۔ پستول سے ڈرتے ہو اللہ سے نہیں۔ امیر صاحبرمندہ ہو کر فورا چلتے بنے۔

غنی خان کی اخلاقی جرات اور عدم تشدد پر مبنی یہ واقعہ لاجواب ہے ملاحظہ ہو

“غنی خان کے اکلوتے بیٹے فریدون خان کی ایک دن ا پنے مزارع کے ساتھ ان بن ہوگئی۔ تو تو میں میں کے بعد بات ہاتھا پائی تک پہنچی۔ کسان کے بیلچے کی وار سے معذور ہوکرکئی سال کے بعد فریدون خان دم توڑ گئے۔غنی خان نے باوجود قوت کے قاتل کو معاف کر دیا”۔

ایک ملاقات میں غنی خان نے فرمایا کہ مولوی کا اللہ قہار اور جبار ہے اور میرا اللہ رحیم و کریم ہے۔جس ذات سے تم ڈرتے ہو اس سے محبت کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

غنی خان کی شخصیت اور شاعری کے کئی رخ ہیں۔صوفی اور فلسفی، طنز نگار اور مزاح نگار، قوم پرست اور حسن پرست، فکر و شعور کا پرچارک، بیباکی اور جرات کا علمبردار، بے خودی اور کیف و سرور کا نمونہ ــــــــ ان کی آفاقیت اور عالمگیریت کے کئی شوخ و شنگ روپ انکو عالمی ادب میں نمایاں مقام دینے کے لئے کافی ہیں۔

غنی خان کی اخلاقی جرات اور عدم تشدد پر مبنی یہ واقعہ لاجواب ہے ملاحظہ ہو

پہلا شعر

د تھمت نہ پہ جھان کے سوک خلاص نہ دی۔

چی اسمان وی کلہ کلہ وی وریز

ترجمہ: تہمت سے دنیا میں کوئی بشر خالی نہیں ہے۔کوئی بلندی میں اگر آسمان بھی ہوجائے تو کبھی کبھی بر آلود ہونا بھی لازم ہے۔

جانوروں اور پرندوں سے بھی شاعرانہ زبان میں بڑے مزے مزے کی باتیں کی ہیں۔ ان کی مست دیوانگی میں بھی شاعرانہ ہوشیاری اور بیداری پنہاں ہے۔ وہ ادھر ادھر کی باتوں میں مقصد کی باتیں کر جاتے ہیں۔ اس لئے ان کو مجذوب فلسفی کہا گیا۔فرنگی سامراج کے خلاف نہ صرف قلم سے جنگ لڑی بلکہ بہ نفس نفیس پختون زلمے نامی تنظیم کے سالار بھی رہے۔اپنے عظیم والد باچا خان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے فرنگی سامراج کا ڈٹ کر مقابلہ کیااور کسی بھی موڑ پر ہمت نہ ہاری۔ حتی کہ قید سخت کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔ کئی جیلوں میں قید تنہائی کا فائدہ اٹھاتےہوئے اپنی شاعری کے خزانے میں بیش بہا بوتیوں کا اضافہ کیا۔ایک جگہ اپنے تاثرات بیان فرماتے ہیں۔

ترجمہ: “حیدر اباد (سندھ) جیل میں میرے ٹکڑے ٹکڑے مستقبل کے علاوہ اور بھی بہت کچھ تھا۔کمرے کے دروازے کے پاس چیونٹیوں کا “بل” تھا۔کبھی کبھی ہمارے احاطے کے درخت پر فاختہ بیٹھا کرتی تھی۔کبھی آدھی رات کے وقت تیتر کی آواز سنائی دیتی تھی۔کبھی کالا کوا شور اور مکر سے بھر پور وزیر اعظم کی طرح دیوار پر براجمان نظر آتا تھا۔نلکے کے پاس شام کے وقت مینڈک بھی نظر آتا۔ دیوار کے اس پار سے اونٹ کی بھلبھلاہٹ سنائی دیتی۔ان دنوں میں بھوک اور پیاس کا شکار تھا تو میں ان سب سے باتیں کیا کرتا تھا۔چیونٹیوں کے آگے تیل میں پکا ہوا ساگ ڈال دیتا تھا۔فاختاؤں کو اپنی باجرے کی روٹی کی چوری ڈال دیتا۔میں نے ان کے مجلس میں چند اشعار لکھے ہیں۔ اگر میں انکی طبیعت کو نہ سمجھ سکا تو معذرت خواہ ہوں۔میں انسان ہوں مینڈک یا چیونٹی کی جلد نہیں پہن سکتا”۔

جانوروں اور پرندوں کے بارے میں لکھی گئی نظمیں طنز و مزاح کی شاہکار نظمیں ہیں ، جن میں انسان کو سیکھنے اور متاثر ہونے کے لئے بہت سارا مواد ملتا ہے۔علامت نگاری کے یہ نادر نمونے ملاحظہ ہوں

اوخ (اونٹ ) نظم کا یہ ٹکڑا

ڈیر زیات بے نورہ خکاری ستا پوزہ کی مھار
دے دومرہ اوچت سر کے د پستے نیستے زنار
اے اوخہ غٹہ اوخہ تہ یی وڑوکے د میگی نہ
لس چندہ کہ زمرے شی خو یریگے د لرگی نہ

ترجمہ: تیری ناک کی نکیل بہت بری لگ رہی ہے۔اتنا اونچا سر اور پستی اور نیستی کا زنار۔اے دیو قامت اونٹ تو چیونٹی سے بھی چھوٹا ہے۔ہزار ہاں شیر بن جاؤ مگر ڈنڈے سے تمہیں ڈر لگتا ہے۔

جانوروں سے تخاطب میں ہمیں انسانی کرداروں کی تفصیلات بتا رہے ہیں۔

مرغ نظم میں انداز بیاں دیکھئے

پرتوگ دے یارہ نشتہ
او شملہ نیغہ د خان
شل خزے دے ساتلے
خو سحر وائی آذان
بہ جنگ کے بہادر
او مستانہ لکہ چنگیز
پہ مینہ کے بے شرمہ
بے پروا ہ لکہ انگریز
وربوز دے د قاضی دے
طبیعت دے د ھٹلر
اواز دے پخنوں دے
او انداز د منسٹر
انجام دے تبخے دے
اے مجنونہ د ڈیران
یو ورز بہ روستو بانگ
وکڑی ڈوڈے بہ وکڑی خان

ترجمہ: ” شلوار نہیں ہے اور پگڑی جیسے خان، بیس بیویاں رکھی مگر دیتے ہو آذان سحر، جنگ میں بہادر اور مستانہ جیسے چنگیز ہو، محبت میں تو بے شرم بے پروا جیسے انگریز، منہ قاضی کی طرح اور طبیعت ھٹلر جیسی، آواز لاف زن جیسی،انداز منسٹر کا، تیرا انجام تو توا ہے،اے گندگی کے ڈھیر کے مجنون،ایک دن خان کا کھانا ہوگاا ور تیری آخری آذان۔

ایک اور نظم مگہ (چوہا) کا یہ حصہ ملاحظہ ہو

اوسے پہ کندو کے یارہ غل یی پلار دے غل وو
مور دے غلچکے وہ ستا نیکہ د بدو مل وو
قوم دے حرام خور دے قبیلہ دے حرام خورہ دہ
مڑ شوے پہ غوڑو پسے لکے دے تورہ سپورہ دہ
ستا وڑوکے خیٹہ دے ھمہ جھان مڑہ نہ کڑہ
ستا کا سیرہ تندہ د عمرونو غلا سڑہ نہ کڑہ

ترجمہ: ” تو غلے کے کٹھیاں میں رہتا ہے تو بھی چور ہے اور تیرا باپ بھی چور تھا، تیری ماں بھی لٹیری تھی اور تیرا آباوجداد بھی، تیری قوم حرام خور ہے تیرا قبیلہ بھی حرام خور ہے، روغن کے پیچے مر رہے ہو اسی لئے تو تمہاری دم سوگھ گئی ہے، تیری چھوٹی سی پیٹ کو دنیا بھر کے خوراک نہ بھر سکی، تیری کمینی پیاس کو تمام عمر کی چوری نہیں بجھا سکی۔

مچ (مکھی)

د ھر چا کرہ میلمہ یی نا بللے بے عزتہ
نہ پہ شڑپ بانے جا ر ووزی نہ پہ سوک او نہ پہ لتہ
کہ پنزوس خپلوان دے مڑہ شی تہ د خپلہ خویہ نہ اوڑے
وے دا سر د خیٹے زار شہ شڑپ شی زیڑہ خیٹہ واوڑے

ترجمہ: ” بے حیا۔ ہر ایک کے دستر خوان پہ تو بن بلایا مہمان ہے۔ لات مکے اور طمانچے سے تو نہیں ٹلتی، اگر تیرے پچاس ہم جنس تیرے سامنے دم توڑ جائیں تب تھی تو اپنی عادت نہیں چھوڑتی اور تو محض شکم پری کے لئے اپنا سر قربان کر دیتی ہے۔

کمترہ (کبوتر) نظم کا یہ حصہ ملاحظہ ہو

اے د مینے لیونیہ
بے گناہ او بے ازارہ
د محراب د پاسہ تاخ کے
کوکے اخلے د دلدارہ
خوش قسمتہ بے خبرہ
نہ دوزخ نہ د ملا نہ

ترجمہ: ” اے محبت کے دیوانے ، بے گناہ اور بے ضرر پرندے، محراب اور طاق میں بیٹھ کر تو اپنی محبوب کا بوسہ لیتا ہے۔ تو بڑا خوش نصیب ہے کہ نہ دوزخ کا خبر ہے نہ ملا کی۔نیکی اور ثواب سے نا آشنا ، شرم اور گناہ سے نا واقف”۔

نظم ماشے (مچھر ) کا نمونہ ملاحظہ ہو

سپک بہ وخیجی پہ تول
دوہ دانو سرہ پہ غوختو
خو ھاتی ستا لہ گزارہ
زان کڑی پٹ پہ خٹو بوختو
پچکاری دے وی تل ڈکہ
وے ھر چا لہ انجکشن
تہ بہ وے ستا باباجی وو
د نوخار سول سرجن
اوگدہ ڈونگہ د ڈمبرے
بد دے نشتہ پہ لشہ کے
واڑہ زھر دے راٹول دی
د وکیل پہ شان پہ خلہ کے

غنی خان کی اخلاقی جرات اور عدم تشدد پر مبنی یہ واقعہ لاجواب ہے ملاحظہ ہو

اتنی باریک بینی اور مقصدیت اس سے پہلے صنف نظم کے کسی پشتو شاعر میں نظر نہیں آئی۔مذکورہ شاعری کو ان کی دوسرے درجے کی شاعری شمار کیا جاتا ہے۔ان کی سنجیدہ ، رومانی ، فلسفیانہ، متصوفانہ اور قومیت اور مقامیت سے بھر پور شاعری کے کچھ نمونے بقد ر مشت از نمونہء خروار پیش خدمت ہیں۔

مگر اس سے پہلے ڈاکٹر راج ولی شاہ خٹک کے یہ چند تعارفی جملے پڑھنا ضروری سمجھتاہوں

ترجمہ: “رنگ اور نور کا شاعر اور نور کے پرتو کا مصور غنی خان ایک ایسی مضطرب روح کا نام ہےجو ہر لمحے حسن کے سمند ر میں اپنے آپ کوڈبونے کا ارمان اور جستجو لئے ہوئے ہیں۔ ان کے نغمات میں منصور جیسی بے باکی ہے۔ اپنے آپ کو حسن مطلق نے الگ نہیں سمجھتا۔ اس کا ساتھ ساتھ ایک اعلی اور نفیس ذہن کا مالک ہےجو زندگی اور کائنات کے اسرار کے گھپ اندھیروں میں بلا خوف و تردد اترتا ہے۔ایک غیور فلسفی کی مانند حقیقت کی تلاش میں مجازی پردوں کو قطعا خاطر میں نہیں لاتا”۔

چی آدم خاورو کے کینی سہ زرغون کڑی

منجیلہ چی پہ دولت شی تو خامار شی

ترجمہ: “آدم مٹی میں مل کر مٹی ہو جائے تو وہاں سے کچھ ہریالی پھوٹتی ہے۔ اگر دولت پر کنڈلی مار کے بیٹھ جائےتو وہ ناگ ہو جاتا ہے”۔

چی بے حسہ شم روکیگم چی احساس لرم سوزیگم

نہ طاقت مے د سکون شتہ نہ ھمت د اضطراب

ترجمہ: “اس نے کہا کہ محبت ایک پھول ہے جو ابھی تازہ ہے اور ابھی افسردہ۔میں نے کہا کہ ایک پھول جب مر جاتا ہےتو سینکڑوں پھول پیدا کر جاتاہے۔

رو یوے غوٹے د گلاب ووئ ماتہ رو

اورے کہ قیصہ د اور اشنا شہ د ایرو

ترجمہ: “گلاب کی منہ بند کلی نے یہ سرگوشی کی۔اگر آگ کی حقیقت معلوم کرنا چاہتے ہو تو راکھ سے آشنائی کرلو۔

غنی خان واقعی ایک ایسے نادر عقیدے کے مالک تھے کہ عالم جذب میں وہ کچھ کہہ گئے ہیں جو بڑے صاحبان دانش کو بھی انگشت بہ دنداں کر دیتے ہیں وہ بیک وقت ایک مجذوب سالک بھی ہیں اور مخمور حسن پرست بھی۔حیات و ممات کی حقیقت کا اظہار اس نظم جوند (زندگی) میں دیکھئے۔

ہر شہ د رب او ھمہ د رب
زہ یو ماخام لہ راغلے یم
باغ او انگور میخانہ د یار
زہ خو یو جام لہ راغلے یم
مینہ مستی او خمار د بل
رقص او خندا او سنگار د بل
گل او نرگس ا و گلزار د بل
زہ تش دیدار لہ راغلے یم
زہ د لولکے وڑے پہ شان
گل او غوٹے او بہار گورم
زہ لکہ شمع بلیگمہ
خیست او مستی د دلدار سہ کڑم
لوے سمندر د مستے نہ ما
ساسکے د رنگ راوڑے دے
زہ پرے د نمر رنڑا لٹووم
ما ھم مشال بل کڑے دے
ہر سہ د رب او ھم د رب
زہ یو ماخام لہ راغلے یم

ترجمہ: “تمام مخلوقات ، موجودات رب کی ملکیت ہے۔ میں تو صرف ایک شام کا مہمان ہوں۔باغ ہوا انگور ہو یا میخانہ ہو میں تو بس ایک جام کے لئے آیا ہوں۔گل و نرگس و نسترن جمالی ہیں۔ میں تو صرف دیدار کے لئے آیا ہوں۔ چھوٹی تتلی کی طرح غنچہ و گل کی بہار دیکھتا ہوں۔میں بذات خود ایک شمع کی طرح پگھل رہا ہوں۔ محبوب کے حسن و جمال سے میرا کیا تعلق۔مستی کے بحر بیکراں سےرنگ کا ایک قطرہ لایا ہوں۔ مشعل ذات کی روشنی میں سورج کی تلاش کر رہا ہوں۔

ھر ٹٹو براق کے چے وی سور د محمد ؐ پہ شان
ہر سپر کعبہ دہ کہ اوسیگی ابراہیم پکے
ہرہ لار مکے تہ زی چے نیت دے د مکے وی
ہر قبر گلشن دے چے رو رو لگی نسیم پکے

ترجمہ: “اگر محمدؐ راکب ہےتو ہر مرکب براق ہے۔ہر سائبان کعبہ ہے اگر اس میں ابراہیم ؑ ہو۔اگر نیت برائے بیت اللہ ہے تو ہر راستہ تم کو مکہ لے جائے گا۔اگر نسیم بہار کا گزر ہو تو ہر قبر گل و گلزار ہے۔

وصیت کا انداز دیکھئے

کہ خازے شنے مے پہ قبر وی ولاڑے
کہ غلام مڑ ؤم رازیی توکیی پے لاڑے
کہ پخپلو وینو نہ ؤم لمبیدلے
پہ ما مہ پلیتویی د جماعت غاڑے
چے قطرے قطرے مے د غلیم نہ کا
مورے ما پسے پہ کم مخ بہ تہ جاڑے
یا بہ دا بے ننگہ ملک باغ عدن کڑم
یا بہ کڑم د پختوں کوسے ویجاڑے

ترجمہ: “اگر میں بہ حالت غلامی مر جاؤں اور میری قبر پر سبز پتھر لگے ہوں تو میرے قبر پر تھوکنا۔ اگر میں مصاف زندگی میں اپنے خون سے نہیں نہایا تو مجھے غسل میت دے کر مسجد کو گندہ مت کرو۔ اے میری ماں، اگر دشمن کی فوج میرے جسم کو ریزہ ریزہ نہ کرے تو پھر میرے لئے مت رونا۔ میں اپنی زمین بے ننگ کو باغ عدن بنادوں گا۔ورنہ پختونوں کے کوچہ و بازار کو ویران کردوں گا۔

مستی جس میں بڑھ جائے مستی چے چا کے ڈیرہ شی

وہ ڈوم بنتا ہے یا شاعر یا ڈم شی یا شاعر شی

صبر کا غلبہ ہو جائے چی صبر چا کے ڈیر شی

فقیر بنتا ہے یا بادشاہ یا ملنگ شی یا بادشاہ شی

جو نفل کا بھر مار کرلیتا ہے چی نفل پہ چا ڈیر شی

وہ ٹٹو بنتا ہے یا فرشتہ یا ٹٹو یا فرختہ شی

جس پر جوانی موج مارلے زوانی چی چا کے ڈیرہ شی

چور بنتا ہے یا ولی یا غل شی یا ولی شی

جس میں زور کی کثرت ہو جائے چی زور پہ چا کے ڈیر شی

یزید بنتا ہے یا علی رض یا یزید شی یا علی رض

جس پر محبت کا غلبہ ہو جائے چی مینہ چا کے زیاتہ شی

نبی بنتا ہے یا دیوانہ نبی یا لیونے شی

جس کا علم بڑھ جائے چی علم چا کے ڈیر شی

شیطان بنتا ہے یا فقیر یا شیطان شی یا فقیر شی

جوند (زندگی)

شراب میں سے خمار و مستی نکال دو چی خمار مستی ترے وؤزی
تو کیا رہ گیا کڑوا پانی شراب سہ ترخے اوبہ شی
جس میں سرور و غرور نہ ہو چی سرور غرور یی نہ وی
وہ زندگی کس کام کی دا جوندون جوندون د سہ وی
جب دل میں محبت کرنے کی لگن نہ رہے چی د مینے زڑہ شی پاتے
جیسے مر جا کر خاک میں ملنے والے پھول لکہ گل وی رجیدلے
یا نور کا شعلہ یا شعلہ یوہ د نور شی
یا ایک مٹھی گرد یا یو مٹی د خزلے
جس زندگی میں تکلیفیں نہ ہو چی جوندون کے سختہ نہ وی
جیسے بغیر نمک کا طعام لکہ بے مالگے طعام
ہونٹوں پر مسکان نہ ہو چی پہ خلہ کے خندا نہ وی
تہ ایسے جیسے جام مٹی بھرا لکہ ڈک د خاورو جام
جوانی میں تکالیف نہ ہو چی زوانیی کے تکلیف نہ وی
جیسے میدان میں تلوار لکہ پٹہ میان کے تورہ
جس کی چمک نہ کھنک نہ یی پڑک شی نہ یی شڑنگ شی
زنگ آلود و بیمار پہ زنگونو کے رنزورہ
جب خوب آرام و سمام ہو چی آرام وی او سمام وی
یاری جائیداد کے بل پر ہو او یاری یی پہ جائیداد وی
خربانو بھی شیریں بنتی ہے خربانو ھم شیرینیئ شی
ہر ٹرو پرو ( ایرا غیرا) بھی فرہاد بنتا ہے ھر ٹرو پرو فرھاد وی
راز و نیاز میں مٹھاس تب ہوتی ہے چی یی سر پہ خندا داؤ شی
جب خوشی خوشی سر کی بازی لگائی جائے ہلہ خوگ راز و نیاز شی
چمکدار تلواروں کی لڑائی ہو چی د سپینوں تورو جنگ شی
ایاز ادھر دکھائی دیتا ہے خکارہ ھلتہ کے ایاز شی
زندگی اگر فرنی چاٹنے کا نام ہے جوند کہ تش فرنی سٹل وی
تو یہ کتا بھی بخوبی چاٹ سکتا ہے دا کو سپے ھم شی سٹلے
اگر صرف نسل بڑھانا ہے کہ تش نسل زیاتول وی
تو یہ بیل بخوبی کرسکتا ہے دا غوئے ھم شی خہ کولے
زندگی نہ شکم ہے نہ محل جوند نہ خیٹہ نہ مانڑیی دہ
نہ لعل نہ جواھرات کا ڈھیر نہ ڈیریئ د سرو لالونو
نہ یار و نہ معشوق نہ یاران نہ معشوقے وی
نہ باغ اور نہ پھول نہ باغونہ د گلونو
زندگی مسلسل چلنے کا نام جوند خو تلہ دی یو پہ مخہ
گر کر اٹھنے کا نام ہے غورزیدل او پاسیدل دی
اس لمحہ سوز اس لمحہ ساز ٹکے سوز او ٹکے ساز دی
کچھ ہنسی مسکراہٹ کچھ رونا دھونا سہ خندل سہ جڑیدل دی
زندگی عاشق کی آنکھوں میں جوند پہ سترگو د عاشق کے
خمار کی کرن ہے پلوشہ دہ د خمار
صحرا میں ڈھونڈنا ہے پہ صحرا کے لٹول دی
محبوب کی گلی کی راستہ د اشنا د کوسے لار

لیڈر

منہ کوے کا زبان سانپ کی د کارغہ خلہ کڑہ جبہ د مار

عقل مرغی کی دل کنجوس کا د چرگے عقل کڑہ زڑہ د سیار کڑہ

گلہ کتے کا جو خوب بھونک سے مرئے د سپی کڑہ چے خہ غبار کڑہ

ضد خچر کی غرور کا بوجھ اٹھائے ضد د قچر کڑہ غرور پرے بار کڑہ

مٹی گاؤں کا گندگی کا ڈھیر شہر کا خٹہ کا کلی ڈیران د خار کڑہ

پھر کسی اندھے کمہار سے دوستی کرلو بیا چرتہ ڑوند کولال یو یار کڑہ

تمہارے لئے ایک نیا لیڈر بنا لے گا تالہ بہ نوے لیڈر تیار کڑہ

ٹوقہ (مذاق)

میں شمع شمع کہتا رہا تو نے مجھے پروانہ بنا لیا ما بہ شمع شمع کولہ تا کڑو جوڑ رانہ پتنگ

میں چھوٹی چھوٹی مچھلیوں کا شکار کھیلنے گیا تھا تلمہ خکار لہ د کبوڑو

تم نے مگر مچھ کے سامنے لا کھڑا کر دیا تا ورپیخ کڑم پہ نھنگ

میں نے قصدا کہا کہ فقیر ہوں میں تم نے سچ مچ فقیر بنا لیا ما لہ قصدہ وے ملنگ یم تا رشتیا کڑمہ ملنگ

میں جنگجوؤں کی نقل اتاررہا تھا تم نے میرے گھر پر جنگ مسلط کر دی ما پیخے کڑے د تورزنو تا مے کور راؤڑو جنگ

میں تو کچھ نہیں کہہ سکتا شکوؤں سے تم خفا ہوتے ہو زہ خو غگ کولے نہ شم پہ گیلو تہ خفہ کیگے۔

تو سچ یہ ہے رب جلیل خو حقہ دا دہ لویہ خدایہ

تم ہنسی مذاق کو نہیں سمجھتے تہ پہ ٹوقو نہ پوھیگے

(سوال و جواب ملا اور دیوانے کا) سوال او جواب د ملا او لیونی

ملا بولا اے دیوانے مکہ کیا ہے؟ لیونیہ مکہ سہ دہ؟

مکہ تو عاشق کا گھر ہے مکہ کور د یو عاشق دے

سب کا مالک وہ خالق رب ہے د ھمؤ رب خالق دے

ملا بولا، اے دیوانے،اب مجھ کو ایمان بتا دے؟ لیونیہ ایمان سہ دے؟

اللہ کرے کہ غنی خان کے سمندر سے لئے گئے یہ چند قطرے انکی ذات فن تک رسائی میں اسانی پیدا کرسکیں۔ میری تنگ دامنی اور وقت کی کمی آڑے آرہی ہے۔امید ہے آپ اس کوتاہی کے لئے مجھے بخش دیں گے۔

سچی اور کھری باتیں کرنے کی جرات تین قسم کے لوگ کر سکتے ہیں۔

فنا فی اللہ صوفی
مطلق العنان بادشاہ
دیوانہ

اب آپ خود اندازہ لگائیں کہ ان تینوں میں سے غنی خان کون ہے۔خود فرماتے ہیں۔

خدایہ عقل چے وؤہ زڑہء دے ولے راکڑو
پہ یو ملک کے دوہ خود سرہ بادشاھان

ترجمہ: ” اے اللہ جب عقل موجود تھی تو دل کیوں دیا؟جیسے ایک مملکت میں دو خود سر بادشاہ”۔

حوالہ جات و حواشی
1: د غنی کلیات ( ماسٹر عبدالکریم کے تاثرات)، د قومونو او قبائلو وزرارت افغانستان ( وزارت اقوام و قبائل افغانستان)، 1364 ش 1985 ء ص
669 -680۔
2: د غنی کلیات ( ماسٹر عبدالکریم کے تاثرات)، د قومونو او قبائلو وزرارت افغانستان ( وزارت اقوام و قبائل افغانستان)، 1364 ش 1985 ء ص 682۔
3:ایضا، ص 683۔
4: ایضا، ص 688۔
5: امتیاز علی مشمولہ مضمون، دغنی خان قیصے سالانہ، “خیبر” میگزین اسلامیہ کالج پشاور، 2007 ص 19۔
6: ایضا، ص 19۔
7: ایضا، ص 19۔
8: غنی، د غنی کلتات، د قومونو او قبائلو وزارت افغانستان، ( وزارت اقوام و قبائل افغانستان) 1464 ش/ 1985ء ص، 661۔
9: ایضا، ص 49۔
10: یضا، ص 521۔
11: ایضا، ص 541۔
12: ایضا، ص 52ـ 53۔
14: ایضا، ص 524ـ525۔
15: ایضا، ص 531-532۔
16: ڈاکٹر راج ولی شاہ خٹک، د نثر گلدستہ، ( انتخاب، مرتبین پرفیسر جھانزیب نیاز،پرفیسر ڈاکٹر اقبال نسیم خٹک، پرفیسر ڈاکٹر شاہ جھان)، ملت پبلشنگ کمبنی چارسدہ، مشمولہ مقالہ، درنگ و نور شاعر، 2000ء ص 295۔
17: غنی ، دغنی کلیات، د قومونو او قبائلو وزارت افغانستان، (وزارت اقوام و قبائل افغانستان) 1364ش/ 1985ء ص 661۔
18: ایضا، ص 502۔
19: ایضا، ص 590۔
20: ایضا، ص 609۔
21: غنی، د غنی کلیات، د قومونو و قبائلو وزارت افغانستان، ( وزارت اقوام و قبائل افغانستان) 1364 ش/ 1985ء ص 339۔
22:ایضا، ص 210۔
23:ایضا، ص 530۔
24: ایضا، ص 621-622۔
25:ایضا، ص 5-6۔
26: ایضا، ص 289۔
27: ایضا، ص 31۔

اس آرٹیکل میں تمام خیالات اور راۓ مصنف کی اپنی ہے۔ راٸٹرزکلب کا مصنف کے خیالات سے متفق ہونا  ضروری نہیں ہے۔

The Author is the Head Department of Pashto and also is In-Charge of historic Khyber Union of the Islamia College University Peshawar. The Author is member of Writers Club Pakistan management committee. His detailed profile is available in Writers Directory.

2 thoughts on “    غنی خان – حیات و خدمات

  1. Pingback: غنی-خان-کی-اردو-نثر-نگاری-اور-پشتو-شاعری (the great Pashto poet)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *