غنی-خان-کی-اردو-نثر-نگاری-اور-پشتو-شاعری
Abstract
Ghani Khan, the great Pashto poet is known as a multi dimensional literary figure, a sculptor and artist (painter) as well. He is a prolific poet of his own unique style. He has introduced a number of genres in Pashto poem. In addition he is a prose writer of Urdu and English also. His prose writings are not been critically analysed on a large scale. In this research paper some of the dimensions of his Pashto poetry and Urdu prose are analysed sharply. Like his poetry his prose is also remarkable and matchless. The Urdu readers specially, will get interesting information in this research paper.
زندگی کے بارے میں ہر تخلیقی فنکار عام عوام جیسی نپی تلی سوچ نہیں رکھتا اور پھر اِن تخلیقی فنکاروں میں شاعر کو یہ امتیاز حاصل ہے ،کہ اُس کے سوچ کی حدیں اور منزلیں معلوم کرنا تو درکنار اُن کے نقطہ ہائے آغاز تک پہنچنے کےلئے بھی اگر شاعر جتنے جذبات نہیں تو شاعر جتنے ادراک کا ہونا لازم ہے۔
اورپھر ہمارے غنی خان تو نہ صرف عظیم شاعرہیں بلکہ ایک صاحب ِطرز انشاء پرداز ہونے کے علاوہ مصوّر اور مجسمہ ساز بھی ہیں۔وہ اپنی تمام تخلیقات میں ایک فلسفی،مفکّر اور متصوّف کی حیثیت میں اُبھرتے ہیں۔غالباً اُنہوں نے شاعری کیلئے پشتو زبان کو چُنا اور نثر کیلئے انگریزی اور اُردو کا انتخاب کیا۔کہیں رنگوں اور مٹی میں اپنے کھولتے ہوئے جذبات و خیالات کو ڈھالا،کبھی الفاظ کے موتیوں کی مالا پروئی تو کبھی اپنے اُبلتے ہوئے جذبات کو صفحہء قرطاس پر منتقل کیا۔ہر جگہ انہوں نے رنگ و نور کے ایسے جواہرپارے پیش کیے جو اپنی مثال آپ ہیں۔ میری مصوّری اور مجسمہ سازی کی نزاکتوں اور تکنیک سے بے بہرہ ہونے کی بنا پر اُن کا یہ پہلو مجھ سے تشنہء تحریر رہے گاالبتہ ان کے منثور اور منظوم ادبی فن پارے جو ہمارے ادب ِعالیہ کا حصہ بن چکے ہیں،کے بارے میں اظہارِ خیال پیش خدمت ہے۔
اپنی قوم سے محبت کسے نہیں ہوتی؟مگر جذباتی وابستگی کو بالائے طاق رکھ کر حقیقت کے آئینے میں جھانک کر اپنی قوم کا چہرہ بغور دیکھنا اور اس کی خوبیوں اور خامیوں کو بلا خوف و تردّد طنز و مزاح کی چاشنی کے ساتھ پیش کرنا غنی خان کو آتا ہے۔آپ کو اُن کی یہ تحریریں پڑھکر ان کی قادرالکلامی کا بہ خوبی اندازہ ہو جائے گا۔انگریزی تصنیف “The Pathans” میں غنی خان کا قلم بے حد شیرینی لیے ہوئے ہے۔لفّاظی اور جملہ سازی سے احتراز کیا ہے۔پٹھانوں کی تاریخ،لوک گیتوں،دیومالائی کہانیوں،رسم و رواج،توہمات ،جذبہء انتقام اور سیاست و نفسیات کے بارے میں نہ صرف بے لاگ تبصرہ کیا ہے، بلکہ ساتھ ہی ساتھ بے پناہ معلومات کی چاشنی شامل کر کے تحریر میں زندگی کی روح پھونک دی ہے،ملّا،جادو اور ٹونے ٹوٹکے جو غنی خان کے خیال میں جونک کی مانند معاشرے کا خون پی کر پلتےہیں ،کو جس عالمانہ اور فلسفیانہ انداز سے ہدف ِتنقید بنایا ہے، اس سے قاری متفق ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔
احمد سلیم غنی خان کی انگریزی کتاب کے اُردو ترجمے کے بارے میں لکھتے ہیں
“یہ کتاب پشتون تاریخ اور روایات کا ایک چھوٹا سا انسائیکلوپیڈیا ہے،کوئی بھی اہلِ قلم چاہے وہ کتنا برجستہ اور صاحب طرز ہو،اپنی تحریر میں اتنی سلاست کا مظاہرہ اُسی وقت کر سکتاہے ،جب اُسے موضوع اور بیان دونوں پر قدرت حاصل ہو۔اس موضوع پر برسوں کی تحقیق کے بعد ہزاروں صفحات پر مشتمل سینکڑوں دوسری کتابیں بھی اتنی سلیس اور اس کے ساتھ ساتھ اتنی مستند نہیں کہی جا سکتیں۔یہ کتاب پرانے دنوں کے ایک نوجوان پشتون،ایک لیوانئے فلسفی( مجذوب فلسفی)، ایک صاحب ِطرز نثرنگاراور عظیم پشتو شاعر غنی خان کی وہ مختصر سی کتاب ہے ،جس میں پشتونوں کی زندگی اور موت،محبت اور جنگ کے بارے میں ہر سوال کا جواب مل جاتا ہے” ۔
غنی خان “دی پٹھانز” میں اپنی قوم کا تعارف کچھ یوں کرتے ہیں
“بہترین راستہ یہ ہے کہ ہم پختون کی اصل کو خاطر میں نہ لائیں،اور صرف یہ دیکھیں کہ وہ آج کیا ہے؟وہ نہ تو یہودی ہے نہ یونانی بلکہ ایک حساس ہمسایہ ہے،جو ایک شفیق دوست بن سکتا ہے یا پھر جانی دشمن۔بیچ کا راستہ وہ نہیں جانتا، یہی اس کی سب سے بڑی خوبی ہے اور یہی سب سے بڑی خامی ہے” ۔
ہم نسل اور ہم زبان پٹھان کا نفسیاتی مطالعہ کرتے ہوئے اُس کے کردار کے خدو خال بیان کرتے ہیں۔ اس کامیاب تحریر کی سب سےبڑی خوبی یہ ہے کہ غنی خان خود پٹھان کی پوست (کھال) اوڑھے ہوئے ہیں اور اُن تمام اندرونی حالات اور کیفیات کا ذاتی تجربہ رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ اس کتاب میں موصوف انتہائی حد تک حقیقت پسند دکھائی دیتے ہیں۔
” پٹھان دل کا بڑا نازک ہوتا ہے،لیکن اپنے ظاہری رویوں میں ناشائستگی اور اکھڑ پن اپنا کر اپنے اندرونی جذبات کو چھپانے کی کوشش کرتا ہے۔وہ اتنا اچھا جنگ جُو ہے کہ اپنی سب سے بڑی کمزوری بھی ظاہر نہیں ہونے دیتا،اس کا کہنا ہے کہ[اتنے میٹھے نہ بنو کہ لوگ تمہیں نِگل جائیں اور اتنے کڑوے نہ بنو کہ لوگ تمہیں تھوک دیں] چنانچہ وہ اپنی شیرینی کو تلخی میں چھپا کر رکھتا ہے،اور صاف اور سیدھے انداز میں عزت نفس کی حفاظت کرتا ہے،اِس کی تُند مزاجی،توانا جسم اور نازک دل کے یکجا ہونے سے ایک ایسا امتزاج وجود میں آتا ہے جو روزی کمانے کیلئے ناموزوں لیکن شاعری اور مصوّری کیلئے مثالی ثابت ہوتا ہے” ۔
اپنی قوم کی نفسیات کا گہرا مطالعہ رکھتے ہوئے مسلسل آگے بڑھتے ہوئے نئے نئے انکشافات کرتے رہے ہیں۔ پختونو ں کے روایتی ادب کے بارے میں یوں رقمطراز ہیں
” آپ کسی لوک گیت کوپڑھ کر نہیں سمجھ سکتے،اس کیلئے ان کا سننا اور دیکھنا ضروری ہے،محض لفظی وضاحت سے آپ مخمل کے بارے میں واقفیت حاصل نہیں کر سکتے ،اس کیلئے ضروی ہے کہ آپ اسے اُنگلیوں سے چُھو کر اور اس سے اپنا رُخسار سہلا کر دیکھیں،تب آپ کو اس کی ساخت کی ملائمت کے لطیف اور گہرے پہلوؤں کا ادراک ہو سکے گا،اسی طرح آپ واقعی پٹھان کا لوک گیت سننا اور اس کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں تو اس کی وادی میں کسی دریا کے کنارے چلے جائیں ،شام کا وقت زیادہ مناسب ہوگا، جب لڑکیاں پانی بھرنے نکلتی ہیں اور نوجوان لڑکے اپنی آرزؤوں اور اُمنگوں کے پیمانے چھلکانے کیلئے چکر لگانے نکلتے ہیں،یہ واحد شراب ہے جو پٹھان پیتا ہے۔
میں نے آپ سے لوک گیتوں کا وعدہ کیا۔ اوراُس کی بجائے ایک ادھوری اور عام سی داستان ِ محبت بیان کر دی۔اس قدیم اور روایتی کہانی کا انجام شادی اور بچے ہیں۔ اس کا مجھے افسوس ہے۔ لیکن پٹھانو ں کے ہاں ایسا ہی ہے ۔ وہ شادی کے بغیر محبت کا تصور بھی نہیں کرسکتا،اگر وہ ایساکرتا ہے تو اس کی قیمت اُسے اپنی جان دے کر ادا کرناپڑتی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ اس کی تمام عشقیہ شاعری اُن عاشقوں کے بارے میں ہے جنہوں نے اس روایت کو توڑنے کی جرات کی” ۔
پٹھان کے من میں جھانک کر اُس کی جبلّت اور فطرت کا بنظر غائر مطالعہ کرتے ہوئے رقمطراز ہیں
“پٹھان اپنی بہن بیٹی کے عاشق کو خواہ گولی سے اُڑا دے لیکن خود اپنی محبت کی عظمت کے گیت گائے گا” ۔
” یہ بھی انسان کا ایک انداز ہے کہ وہ حضرت عیسیٰؑ کو پھانسی پر دیکھنا چاہتا ہے،اور پائلٹ (روم کا گورنر جس نے حضرت عیسیٰؑ کی پھانسی کا حکم دیا تھا) کو شام کے کھانے کی دعوت دیتا ہے،لیکن جب وہ گیت گانا چاہتا ہے ،تو یہ گیت ہمیشہ حضرت عیسیٰؑ کی شان میں ہوتا ہے،کبھی کسی نے ‘پائلٹ’ کی شان میں گیت نہیں گایا،قانو ن کی محبت میں گایا جانے والا کوئی گیت تخلیق نہیں ہوا” ۔
پٹھان روایات کا امین ضرور ہے مگر فطرت کے آگے کسی کی بھی نہیں چلتی۔ خان اور درویش کے درمیان امتیاز بتاتے ہیں۔ اس موضوع پر ان کا نقطہ نظر پڑھ لیں
“بیک وقت درویش اور خان بننا ایک مشکل کام ہے،میں ایک اچھا خان بن گیا ۔ یہ میرے لیے زیادہ آسان اور فطری تھا،چونکہ لوگ بدکار ہوتے ہیں،اس لیے اُنہیں سزا دینا ضروری ہے،درویش صفت لوگ سزا دینے کا اختیار چھین لیتے ہیں،قانون زندگی کا ایک لازمی جُزو ہے اور درویش اتنا ہی قانون شکن ہوتا ہے جتنا کہ ڈاکو۔لیکن درویش بننا ڈاکو سے زیادہ مشکل ہے” ۔
قانون کے خوف سے بے پروا، اُصول کیلئے اور حق و صداقت کی سر بلندی کیلئے جان قربان کرنے کا منظر دیکھئے
“وہ اپنے خون کے رشتے کے ساتھ سچا معاملہ کرے گا،خواہ اِس میں وہ تباہ وبرباد ہو جائے ،وہ اپنی بیوی یا بہن کے خون سے رنگے ہوئے ہاتھوں کے ساتھ پھانسی کے تختے تک فخریہ انداز میں چل کر جائے گا،اور اُس کے قبیلے کے لوگ اُسے تحسین آمیز نظروں سے دیکھیں گے کیونکہ وہ اصول کی خاطر اپنی جان کا نذرانہ دینے والوں کو خراج ِتحسین پیش کرتے ہیں۔پٹھان لوگ جس شخص کیلئے “ہیرو” کا نعرہ لگاتے ہیں ،جج اُسے قاتل گردانتا ہے اور میں کبھی اس نتیجے پر نہیں پہنچ سکا کہ کون صحیح کہتا ہے ” ۔
انسان کی فطری سرکشی اور خود سری کو مدِ نظر رکھ کر زندگی کے لئے بنائے گئے قوانین سے رو گردانی کرنے پر ملنے والی سزا کا خوف اور قانون شکنی پر ملنے والے داد و تحسین کے موضوع کو بڑے فلسفیانہ اور منطقی انداز میں سمیٹا ہے جس سے کوئی اختلاف نہیں کیا جا سکتا۔
“رسم و رواج اور قوانین انسان کو ایسی چیزوں سے محفوظ رکھتے ہیں جو اُس کیلئے حد سے زیادہ بُری ہیں،رسم و رواج ایک معیار قائم رکھتے ہیں اور جو لوگ اس معیار پر پورا نہیں اُترتے اُنہیں راستے سے ہٹا دیتے ہیں،پٹھانوں کے رسم و رواج اتنے ہی اچھے اور برے ہیں جتنے آپ کے ہیں ،ان دونوں میں باغیوں کیلئے کوئی گنجائش نہیں اور دونوں اپنی نمو کیلئے ان لوگوں پر انحصار کرتے ہیں جو اِن کو توڑنے کی قدرت رکھتے ہوں” ۔
اُصول کی خاطر کسی بھی قربانی سے دریغ نہ کرنا پختون کی ذات کاحصہ ہے۔ کچھ تلخ حقائق کے ساتھ اس بات کو ثابت کرکے دکھایا ہے۔ یہاں قانون اور انصاف کے تقاضوں کے بارے میں بھی سوال اُٹھتے دکھائی دیتے ہیں۔
“پٹھان کی سیاست کا محور دولت اور طاقت،بھوک اور جا ہ پسندی ہے،جیسا کہ آپ کی سیاست کا ہے،چونکہ اس کی رگوں میں آپ سے زیادہ خون اور اس کے دماغ میں آپ سے زیادہ ہیجان ہے ،اس لیے وہ اپنے خون اور ہیجان کو زیادہ مستور رکھنے کی طرف مائل ہے” ۔
ان کے نزدیک معاشرے میں چار قسم کے لوگ بستے ہیں۔ حاکم، محکوم، پاگل اور شاعر۔ یہ شوخی ملاحظہ ہو
“کوئی شخص حاکم ہوتا ہے ،یا محکوم۔تیسرا راستہ کوئی نہیں ،سوائے اس کے کہ آپ شاعر ہوں یا پاگل” ۔
پختون کی خود اعتمادی اور خود سری و سرکشی کے اسرار و رموز اور فوائد و نقصانات یوں بیان کرتے ہیں ۔اس کی فطری خوش فہمیوں اور پوشیدہ صلاحیتوں کا تذکرہ یوں چھیڑتے ہیں
” اُسے اپنی آزادی سے پیار ہے لیکن دوسرے کو آزادی دینا پسند نہیں،وہ ایک سچّا جمہوریت پسند ہے،وہ اپنے بارے میں سمجھتا ہے،کہ کسی دوسرے شخص اور اس کے باپ کو یکجا کردیا جائے تو وہ اکیلا اُن دونوں کے برابر ہے،وہ اتنا بےوقوف ہے کہ اپنی بیوی کے ساتھ اِس قسم کا سلوک روا رکھتا ہے،جس کا خمیازہ اُس کی بیوی جوانی میں اور خود اُسے بڑھاپے میں بھگتنا پڑتا ہے”
اقوامِ عالم میں کئی چیزیں مشترک بھی پائی جاتی ہیں مگر فطرت کے مطابق ہر کوئی اپنی زندگی کو اپنے انداز سے برتتا ہے۔
” وہ (پختون) صرف محبت کرنا،ہنسنا اور لڑناجانتا ہے،اِس کے علاوہ اُسے کچھ نہیں آتا،اُسے کچھ اور سکھایا بھی تو نہیں گیا” ۔
اُردو فن پارے “خان صاحب” میں غنی خان ایک اَن چھوئے رنگ میں ظاہر ہوتے دکھائی دیتے ہیں،پاکستان کے اندر بسنے والی قومیتوں کے مابین غیر محسوس اور غیربیانیہ ہم آہنگی پیدا کرنے میں یہ چھوٹی کتاب ایک بڑا کردار ادا کرتی ہے،مرکزی کردار “خان صاحب” کی بوقلمونی دیدنی ہے،جس اعلیٰ فنکاری کے ساتھ مذاق مذاق میں غنی خان کا قلم سفر کرتا ہے تو صدیوں کا فاصلہ چند صفحوں میں سمٹ آتا ہے،”خان صاحب”کے مذہب اور ثقافت کو چند مختصر کہانیوں میں بڑی دیدہ دلیری اور تفصیل سے واضح کیا گیاہے،زندگی کے بارے میں ایک عام آدمی یا ایک عام ان پڑھ مسلمان کا نظریہ واضح کرتے وقت جو خود نقادی سامنے آتی ہے ،یہ غنی خان ہی کا خاصہ ہے۔”خان صاحب” کی کردار کی معصومیت اور ڈِھٹائی کے ذریعے انسانی رویوں اور نفسیات کا جو فلسفیانہ جائزہ لیا گیا ہے ،اس کی مثال بہت کم ملتی ہے ،بات سے بات نکالنا اور بات کو بات میں سمونا اُن کے شگفتہ قلم کا وہ کارنامہ ہے ،جس نے حساس سے حساس موضوع میں اتنی سادگی،روانی اور سلاست بھر دی ہے کہ کوئی بات نہ تو گراں گزرتی ہے نہ کھٹکتی ہے ،بلکہ سوچوں میں تحلیل ہوتی چلی جاتی ہے،ایسے نازک موضوعات پر لکھتے وقت ہر لکھاری کئی مرحلوں پر پچھتاوے اور تذبذب کا شکار ہو جاتا ہے،مگرغنی خان اِن دو اصطلاحات سے جیسے واقف ہی نہ ہوں،اسی لیے تواُن کو مجذوب فلسفی کہہ کر پختون بہت خوش ہوتے ہیں ،اور اُ ن کی ہر بات کو گنجینہء گوہر سمجھ کر احترام و احتشام کی نظر سے دیکھتے ہیں۔اُردو کتاب “خان صاحب “کے چند اقتباسات ملاحظہ ہوں،یہاں ان کے تحریر کی شگفتگی یقینا ً حیران کن ہے،نہایت ہی سنجیدہ موضوعات پہ اس کی غیر سنجیدگی نے جو سنجیدگی طاری کر دی ہے ،یہ خوبیاں بہت کم ادیبوں میں پائی جاتی ہیں،رحمت شاہ آفریدی تعارفی کلمات میں لکھتے ہیں
“زندگی بھر پشتو اور انگریزی میں اظہار خیال کرنے والے اِ س اچھوتے قلمکار نے یہ کتاب براہ راست اُردو میں لکھی ہے، جس میں انہوں نے بڑے شگفتہ لیکن با معنی انداز میں پختونوں کی گلابی اُردو کے سلیس نمونے پیش کئے ہیں ۔ جو کشت زعفران معلوم ہوتا ہے ” ۔
نمونہ ملاحظہ ہو
“اچھا تو خان صاحب آپ کے گاؤں میں سکول ہے؟نہیں ہم مسجد میں پڑھتا تھا،یہ پارسی مارسی چار پانچ سال پڑھا،پھر ہم بڑا ہو گیا اور مُلّا مر گیا،یہ کہہ کر خان صاحب چپ ہو گیا ۔۔۔’’واہ بھئی خان !مُلّا مر گیا تو تعلیم ادھوری چھوڑ دی۔( شاکر صاحب نے حیرت سے کہا) وہ مُلّا مر گیا تو دوسرا آگیا ۔اُس کے چھوٹا بھائی کے ساتھ ہم اُس سے قرآن پڑھتا تھا،سردی میں وہ ہم سے کہتا بیٹا!اِدھر آؤ آگ کے پاس بیٹھو،میں بیٹھا،تو اُس نے ادھر چونڈی لگا دی،یہ کہہ کر خان صاحب نے اپنی پیٹھ پر چٹکی لی،شاکر صاحب دریائے حیرت میں غرق ہو گئے،خان نے کہا،میں دل میں بولا کہ شیر خانا یہ مُلّا تو بڑا سُوَر کا بچہ ہے،ایک دن ہمارے ماموں کا لڑکا چُھری کو تیز کر رہاتھا ،میں نے چُھری کو دیکھا تو اُس سے کہا،اکبر خان! یہ مُلّا تو ہم کو اوپر چونڈی لگاتا ہے،آج میں اُس کو ٹھیک کر دوں گا،یہ ہمارا گھروں کا حلوہ ملوہ کھا کھا کر مست ہو گیا ہے،اب لوگوں کو معلوم ہو جائے گا کہ مُلّا ہم کو چونڈی لگاتا تھا،پھر میں نے سوچا کوئی اور ترکیب کرو،مُلّا کا ایک لڑکا تھا ہم سے ایک سال چھوٹا،اکبر خان نے اُس سے دوستی کر لی اور اُسے کشمش اور بادام کھلاتے،ٹافی سیگریٹ اور چلغوزہ لیکر دیتے،ایک روز مُلّا نے سورۃ یاسین پڑھاتے ہوئے چونڈی لگایا،میں نے دل میں کہا،یہ مُلّا تو اصلی خنزیر کا حرامی بچہ ہے،سورۃ یاسین کے بیچ میں چونڈی لگاتا ہے،اکبر خان کو یہ بتایا،تو وہ دوسرے دن مُلّا کے لڑکے کو شکار کیلئے لے گیا،دس دنوں کے اندر اندر اُسے وہ کتاب پڑھا دیا جو مُلّا مجھے پڑھانا چاہتا تھا،اُسی دن سے ہم نے سبق چھوڑ دیا، ارے لا حول ولا۔۔۔۔۔۔خان تم بڑا خراب آدمی ہے،تمہارا بھائی نے بڑا خراب کام کیا ،شاکر صاحب نے پوچھا۔
خان بولا،ہم خراب ہے کہ مُلّا خراب ہے؟انصاف تو قاضی کے گھر میں بھی نہیں،مُلاّنے کیوں ہمیں چونڈی لگایا اور پھر سورۃ یاسین کے بیچ ،میں نےیاد دلایا” ۔
غنی خان کی تحریر کی شگفتگی ، کاٹ دار جملوں، مافی الضمیر کی بے ساختگی اور روانی وغیرہ کی وجہ سے انسان پڑھتے پڑھتے اس کتاب کے اُس پار ہنستے ہنستے نکل جاتا ہے:
“خان صاحب اُ ن کی بڑی تواضع کرتے “سیّد ہے سیّد ” وہ کہتے،اس سے ڈرو،یہ خدا کے دوست کا بچہ ہے،شاہ جی اور خان صاحب کی ایکدم دوستی ہوگئی، ایک روز شاہ جی نے کہا، ارے خان یہ تکّلف نہ کیا کریں ،آپ عمر میں ہم سے بڑے ہیں،نہیں نہیں، خان نے کہا، ہم سیّد لوگ سے بہت ڈرتا ہے، پھر وہ مجھ سے مخاطب ہوا ۔اِن میں ایک لوگ ہوتا ہے،جس کا زبان کالا ہوتا ہے،جس کو بد دعا دے دیتا ہے اُس کو پاگل کتّا کاٹ لیتا ہے سب خاندان پاگل ہو جاتا ہے ،”نہیں بھائی خان”شاہ صاحب بولے،یہ کسی نے آپ کو غلط بتایا ہے،ہم کسی کو بد دعا نہیں دیتے ،نہ کتوں سے کٹواتے ہیں،یہ تو گناہ ہے،ظلم ہے،اچھا۔۔۔۔۔خان نے کہا۔۔۔۔تم کسی کو بد دعا نہیں دیتا؟ “نہیں بھائی کبھی نہیں”شاہ صاحب نے کہا: خان صاحب بہت خوش ہوئے ۔۔۔یہ اصلی سیّد ہے” ۔
خان صاحب کی صداقت اور حقیقت پسندی کا نقشہ یوں کھینچتے ہیں کہ کردار ذہن کے سکرین پر چلتا پھرتا دکھائی دینے لگتا ہے:
” کیوں بھائی خان ! تم لوگ سیدھے سادے مسلمان ہو تمہارا کیا خیال ہے؟۔۔۔۔۔وہ ہمارا سلام آسان ہے ،خان نے کہا،اس میں اتنا لمبا لمبا بات نہیں ہے،تمہارے اِنکو مِنکو اسلام میں تواتنا لمبا لمبا بات ہے ،کہ اس میں ہمارا باپ بھی معلوم نہیں کر سکتا کہ اسلام کدھر ہے؟” ۔
“جب ہمارا کوئی کام نہیں ہوتا تو ہم اوپر بیٹھتا ہے اور چائے پیتا ہے،اپنا سوچ سوچتا اور گپ شپ مارتا ہے،وقت گزر جاتا ہے۔اب نذیر بھائی بولتا ہے،”کہ یہ سولہ آنہ پکا بات ہے کہ قرآن میں چائے کی بات نہیں،قرآن میں نہیں تو جنت میں بھی نہیں،کیونکہ جو چیز جنت میں ہے وہ قرآن میں بھی ہے،جب ہم جنت میں جائے گا تو وہاں کام بھی نہیں ہوگا ،چائے بھی نہیں ہوگا،یار!ہم تو مر جائے گا” ۔
خان صاحب کی گلابی اُردو کو جس پُر تاثیر اور شوخ انداز میں غنی خان نے جملوں اور کیفیتوں کے ساتھ لکھا ہے۔ اس کی مثال پہلے کبھی نظر سے نہیں گذری:
“جب ہم کہتا ہے کہ معافی مانگا تو تم کہتا ہے ’’معافی مانگی کہو‘‘یہ تمہارا کیسا زبان ہے؟”نہیں خان”شاکر نے کہا، یہ کہنے سے بدلتا ہے ،جس لفظ میں زور زیادہ ہوتا ہے ،اس کا صیغہ بدل جاتاہے،جیسے آپ نے معافی مانگی ہے اور میں معافی مانگتا ہوں،خان کی آنکھیں غصے سے پھیل گئیں،تم ہم کو گالی دیتا ہے،ہمارے لیے مانگتی اور اپنے لیے مانگتا،کیا ہم نر نہیں ہیں؟۔۔۔۔اب شاکر صاحب سوچ میں ڈوب گئے،خان صاحب نے بڑے رنج کے ساتھ معاملہ پر غور کیا اور پھر اپیل میں آسمان کی طرف ہاتھ پھیلا دیئے،یا خدایا یہ کیسا لوگ ہے ۔اپنے درمیان نر کو نہیں پہچانتا” ۔
ذیل کی عبارت میں ان کہی باتوں اور تشنہء اظہار خیالات ملاحظہ ہوں:
“خان!،خدا نے آپ سب پٹھانوں کو مذکرمؤنث کی تمیز نہیں دی تو ہم بےچارے کیاسکھائیں۔یار تم کبھی کبھی بڑی خراب بات کرتی ہے۔۔۔خان نے شکایت کی۔خراب بات کرتا ہے ۔شاکر نے اصلاح کی۔ارے بھائی یہ کیا بات ہے ۔خان صاحب چِڑ گئے،کبھی مرد اور کبھی عورت،تم لوگ ایک جگہ ٹھہرتا کیوں نہیں ؟کبھی آگے کبھی پیچھے،یہ کیسا زبان ہے؟ شاکر صاحب نے جیسے ہتھیار ڈال دئیے اور اس معرکہ زبان و پٹھان میں اُردو بےچاری بُری طرح ہار گئی،اورخان صاحب کی صوبائی خود مختاری کا اعلان کر دیا” ۔
غنی خان بطور شاعر:
غنی خان بطور ِشاعر اُس بےقرار وسرگشتہ روح کا نام ہے ،جو کبھی اپنی ذات میں گُم کائنات کی حدوں کو چھوتا ہے اور کبھی کائنات کی لامحدود وسعتوں میں گھومتا گھامتا اپنے محبوب کی نشانیوں کو سینے سے لگائے ہر جمال اور جلال کو محبوب کے روپ میں دیکھتا ہے،ان کے اشعار میں منصور کی سی بےباکی اور قیس کا سا خلوص نظر آتاہے،اور حقیقت تک رسائی میں تمام مجازی پردوں کو چاک کرتا ہوا تیر کی طرح آگے بڑھتا ہے،اور اس سفر کے ہر مرحلے پر گزشتہ سفر کے تجربات ، اردگرد کے مناظر کی تصویر کشی اور درپیش سفر کیلئے بے چینی اور اضطراب شاعری کی زبان میں کسی رومانی رنگ میں یوں بیان کرتا جاتا ہےجیسے نگر نگر کی کہانیاں سنانے والا قصہ خوان درجنوں پُرتجسس لوگوں کو اپنے سِحر میں گرفتار کر کے اُن کی نیندیں اُڑا چکا ہوتا ہے۔
داکٹر راج ولی شا ہ خٹک لکھتے ہیں:
“غنی خان اُس ارمان کا نام ہے جو بمشکل زمان و مکان کی اس محدود فضا میں سما سکے،بہار کے سرخ اور پیلے پھولوں کے رنگ میں ، بادنسیم کے مست جھونکوں میں ،نور کے چھینٹوں کی کرنوں میں، قوسِ قزح کے لہراتے ہوئے رنگوں میں پھیلا ہوا یہ ارمان، غنی خان کے مخصوص تخیّل کی وجہ سے جمالیات کے کچھ ایسے تجربوں سے گزرا ہے،جب اظہار کی شکل لے لے تو ایک آفاقی فن جنم لیتا ہے” ۔
جب ہم غنی خان کی شاعری کے موضوعات کا بغور جائزہ لیتے ہیں تو قومیت کے علاوہ جن جذبوں نے غنی خان کو قبولِ عام کا درجہ دیا، وہ محبوب حقیقی سے والہانہ لگاؤ ہے، اور اس لگاؤ کا اظہار اُنہوں نے وحدت سے زیادہ کثرت کے ذریعے کیا ہے، مگر اُنکی بدقسمتی یہ رہی کہ ابتک اُن کی شاعری سے لوگ وہ فیض نہ اُٹھا سکے جو اُٹھانا چاہیے تھا،ان کے منفرد لب ولہجے اور تخّیل تک رسائی ہر کسی کے بس کی بات نہیں،انہوں نے صوفیانہ افکار کے علاوہ بھی انتہائی دلیری اور سرکشی کا انداز اپنایا ، جس کو بے حد سراہا جا رہا ہے،زندگی کے حقائق پر بے لاگ قلم زنی کی ہے،جب کبھی انہوں ضرورت محسوس کی تو طنز و مزاح سے بھی کام لیا،مگر لگی لپٹی کے بغیر دل کی بات کرنے کی کوشش کی اور اس میں بے حد کامیاب رہے ،اس کے باوجود انہوں نے اپنے آپ کو پابند محسوس کیا اور کہا:
“غني وائي کۀ مې د زړۀ خبره وکړه
پښتانۀ به مې په سر لرګي کړي مات”
ترجمه: غنی کہتا ہے اگر میں نے دل کی بات کہہ ڈالی،تو پختون نہ جانے ميرا سر پھوڑتے ہوئے کتنی لاٹھیاں توڑ ڈالیں۔
غنی خان صاحب کے درجہ ذیل الفاظ ان کے شاعرانہ احساس کو سمجھنے کے لیے کافی ہیں۔ نثر میں شاعر کی عظمت ، نزاکت اور حساسیت کے بارے میں یوں رقمطراز ہیں :
“شاعر اپنے ماحول کا ترجمان ہوتا ہے۔اس کی مثال ایک ایسے جسم کی ہے جس پر کھال نہیں ہوتی اگر ذرا سا کانٹا چھو جائے تو آسمان سر پہ اُٹھا لیتا ہے۔اگر ہلکی سی راحت مل جائے تو خوشی سے بے ہوش ہوجاتا ہے” ۔
ايک نظم ” سپوږمۍ مسکۍ شوه” (چاند مُسکرایا ) کا ترجمہ
چاند نے مُسکرا کر کہا!یہ کیا تول رہے ہو؟ سپوږمۍ مسکۍ شوه وې دا “تول د څۀ کے”
پیار میں تولنا کیسا؟ مينه کښې مړه څوک تلل نۀ کوي
بھری بہار میں پھولوں کا حساب په سُور بهار کښې د ګلونو حساب
ہنسو،اور موج مستی کرو خانده مستېږه او چړچې کوه
اِن بے شمار سوالوں کا ایک ہی جواب د دې لکها سوالونو يؤ دے جواب
چلو!اپنے باغیچے کی نرائی گڑائی کرو ځه کښېنه ګوډ دې د باغچې کوه
دل کی نگری میں دماغ کا کیا کام د زړۀ وطن کښې د سر لاره نشته
بہلول دانا کی طرح ذہانت کا کیا ماپنا د فکر تول لکه بالول بۀ څۀ کړې
یاروں کا آپس میں کیا حساب د يار حساب د خپله ياره نشته
چاند نے مسکرا کر کہا!یہ کیا تول رہے ہو سپوږمۍ مسکۍ شوه وې دا تول د څۀ کے”
ہنسو بہار میں روتے کیوں ہو خانده سپرلي کښې خوند ژړل نۀ کوي
پیار میں تولنا کيسا؟ مينه کښې مړه څوک تَلَل نۀ کوي[i]
[i] غني خان، د غني کليات، د قومونو او قبائلو وزارت، د نشراتو رياست، ١٩٨٥ء، ص ٣٩٧.
ان کی نظم کا ایک اور نمونہ جو بیک وقت تصوف، پند و نصیحت اور شعلہ بیانی کی خوبیاں لئے ہوئے ہے۔ غنی خان عوامی زبان میں بڑی خواصی بات کہہ جاتے ہیں۔ ملاحظہ ہو:
نظم”باچا” (بادشاہ) کا ترجمہ
دنیا کی سلطانی کا کیا کرنا، یوں غموں میں اضافہ کرتے ہو؟
بادشاهي د جهان څۀ کے ځان له ولې زياتے غم
انصاف کے ناپ تول میں کمی بیشی ہو سکتی ہے
د انصاف تَلَل مشکل دي څۀ به ډېر کړې څۀ به کم
غم جاں کیاکم ہیں کہ غم جہاں کی فکر لگ گئی ہے
خپل غمونه دې لا لږ دي د جهان غمونه غواړې
ایسے تخت کا کیا کرنا جس پر شب و روز کا رونا ہو
داسې تخت به څۀ کړې څۀ کړې چې پرې شپه او ورځې ژاړې
گھوڑوں کے قافلے میں طاقتور گھوڑا سبقت لے جاتا ہے
د ټټوانو په ګله کښې غټ ټټو مخکښې روان وي
جانوروں کا بادشاہ سب سے بڑا حیوان ہوتا ہے
لوئے باچا د ځناورو د همه ؤ لوئے حېوان وي
دُنیا کُتّے کی دُمّ ہے جس کی کجی نہیں جاتی
دا دنيا د سپي لکۍ ده نۀ نېغيږي نۀ سميږي
کالی بِلّی ہے لاکھ دھونے سے گوری نہ ہوگی
په وجود توره پيشو ده چې ئې وينځې لا تورېږي
حکمرانی تب ملتی ہے کہ کچھ قاتل اورکچھ مقتول بنیں
بادشاهي هله جوړيږي چې نيم لګي شي نيم مړه کړي
غالب مغلوب کے لوتھڑے کتوں کو کھلا دے
چې يو کس د بل په غوښ د خپل کور کوتري ماړۀ کړي
کیا فائدہ ایسی زندگی کا کہ مارو یا مرو
د دې ژوند نه څۀ مطلب شو چې يا مرې يا به بل وژنې
یہ پھل اور پھول کس کام کے کہ باغ کی رکھوالی کرو مگر بلبل کو قتل کرو
دا مېوه ګلاب دې څۀ شو باغ ساتې او بُلبُل وژنې
اے اللہ!اگر مجھے سارے جہان کی سلطانی دیدی
ربه ما له کۀ دې راکړه بادشاهي د کُل جهان
تو گوبر کی طرح گند کے ڈھیر پر پھینک آؤں گا
زۀ به ئې وغورځوم له کوره لکه سوټې په ډېران
یہ حیات مستعار میں جنگ و جدل کی نظر نہیں کروں گا
دا يو دوه ګهړۍ ژوندون زۀ په جګړو نۀ شم تېرولے
اِ س ظلم کی ہانڈی کا ڈھکن کسی اور کو بناؤ
د دې ظلم په کټوۍ دې ربه بل کېږده برغولے
مجھے چند پھول اور ایک نازنین عطا کر
ما له راکړه څو ګلونه يو نيازبين شانې جانان
دریا کے کنارے ایک چھوٹا سا باغ ہو
يو وړوکے غوندې باغ او په خوا ئې سيند روان
بیٹھا رہوں بید کے سائے تلے
چې ئې زۀ په غاړه ناست يم په يخ سيوري د خر ولې
مزے لے لے کر مزے مزے کی غزلیں لکھوں
په مزه مزه ليکمه د مزې مزې غزلې
کبھی محبوب کو راضی کروں اور کبھی مُلّا کو ملامت کروں
کله سوال منت جانان ته کله بد او رد مُلا ته
ساغر و ساقی کی تعریف کروں پیٹ بھر کے شلجم کھانے والے لالا بھیا کو
د ساغر ساقي صيفت کوم د ټېپرو ډک لالا ته
اور کبھی کبھاربچوں کی مانند اے رَبّ تجھ سے شکوے کروں
کله کله تا نه ربه د وړو په شان ګيلې
کبھی پُر اُمّیدی اور کبھی سرد آہیں
کله تود ژوندے اُميد کله سوے اسوېلے
کبھی ساز و نغمہ،کبھی ساغر و مینا اور کبھی دلبری
کله ټنګ کله ټکور کله جام کله دلبر
رنگینی کے جہاں میں گُم ، دنیا سے بے خبر
يو جهان کښې د رنګ ډوب د جهانه بې خبر
سُلطانی ان کو عطا کر جو
بادشاهي هغو له ورکړه چې زغملے ئې شي زور
سانپ کی خصلت اور قصائی کی عادت رکھتے ہوں
چې په لاس لکه قصاب وي په خصلت لکه منګور
جو اپنے بھائی کا خون کر سکتے ہوں
چې خپل ځان ته شي کولے قرباني د ورور د وينې
جو غریبوںکا گوشت نوچ کرہضم کر سکتے ہوں
هم هضمولے هم خوړے شي د غريب د غوښو پينې
تاج اُس سر پہ سجتا ہے جو وباء کی طرح مارے
تاج وړلے هغه سر شي چې وژل لکه وبا کړه
چیتے کی طرح چیرپھاڑ کرے،بھوت پریت کی مانند ڈرائے
لکه پړانګ داړل څيرل کړه ويرول لکه بلا کړه
تخت قائم نہیں رہ سکتا بغیر طاقت،تلوار اور جلّاّد کے
تخت هم نۀ پائي بې زور ه بې د تورې د جلاده
سلاطین کی کثرت دنیا کی بربادی کا سبب
بادشاهان چې څومره ډېر وي دومره وي دنيا برباده
عظیم سلاطین بڑے جونک جیسے لہو پہ پلتے ہیں
لوئے بادشاه وي لويه ژوره دے په وينو زوو پائي
سلطانی آگ کی مانند ایندھن پہ پلتی ہے
بادشاهي لکه د اور په ورتو په سوو پائي
اے رَبّ! اپنے فضل و کرم سے ہمیں اس آفت سے امان میں رکھ
ربه فضل په مونږ وکړه مونږ ساته د دې افته
یہ لعل و گوہر سے مزّین پالان (جھول) کسی بڑے گدھے کی پیٹھ پر سجا دے
چرته غټ خر ته په شا کړه دا د سرو لعلونو کته
صاحب!ہماری جانب سے یہ بھی سفارش کر دے
سفارش ورته دا وکړه صېب زمونږه د بابته
کہ غنی کو دولتی نہ مارے
وے پام کوه د دله خره غني او نۀ وے په لته
ان کی اکثر منظوم تخلیقات کا محور و مبداء عشق حقیقی پر مبنی ہے،بات خواہ عام انسانی زندگی اور معمولات کے بارے میں کیوں نہ ہو،ان کا نظریہ روایتی مگر انداز بیان اور ذہنی دسترس نہایت ہی جد اگانہ ،سادہ اور پُر کیف ہے۔ہیئت میں کچھ تاثر انگریزی شاعری کا لگتاہے،مگر پشتو عوامی شاعری کی روح کی تقلید بڑی گہرائی کے ساتھ ملتی ہے ۔قوم پرستی کے نمایاں وصف کے باوجود خُدا رسیدہ صوفی دکھائی دیتے ہیں۔بلکہ پختو نولی (پختون ثقافت)کی چیدہ چیدہ خوبیوں اور پختون قوم کی جبّلتوں کو اپنے تصوف کی بنیاد بنا کر محبوب حقیقی سے ہمکلام ہوتے ہیں۔خودسری اور سرکشی کے مآخذ کو بھی محبوب کی جانب سے خصوصی عنایت کے طور پر ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ منطق کے ذریعے فلسفہ حیات و ممات میں بحث طلب اور عام لوگوں کی نظر سے پوشیدہ نکات کو بحث کا موضوع بنا کر اپنی نظموں میں تذبذب اور کشش پیدا کرتے ہیں۔
دنیا کی خوبصورتی اور جاہ و جلال کا بھر پور تذکرہ کرتے ہیں اور اپنے گاؤں کی پگڈنڈیوں اور تنگ و تاریک گلیوں میں رہنے والوں کے اعلیٰ اوصاف سے موازنہ کرتے ہیں۔بناوٹ کو فطری خواص اور فطری مظاہر سے بہت کم تردرجے کا سمجھتے ہیں۔ان کے افکار کی اُڑان کیلئے تمام فضائیں کھلی ہیں،گھاٹ گھاٹ کا پانی پی کر،دیس دیس کی سیر کر کے اپنی حقیقت نہیں بھولتے ۔مرکز و منبع سے لاکھ دور چلا جائے مگر مراجعت میں تاخیر ہے نہ رُکاوٹ۔الحاد کے گُھپ اندھیروں میں بھی ایمان کی شمع روشن رکھتے ہیں۔اپنی رگوں کو تاروں کی مانند بجابجاکر وحدت کے گیت گاتے رہتے ہیں۔خود بھی مست اور ماحول کو بھی مست و بے خود رکھتے ہیں۔
پٹھان (اردو ترجمہ)، غنی خان، از احمد سلیم،فرنٹیر پوسٹ پبلیکیشنز، ١٩٩٣ء ، بیک ٹایٹل کی پشت پر،
غنی خان، پٹھان (اردو ترجمہ)، رضا الحق بدخشانی، ص ١٩۔
ایضاً ، ص ٢٧ – ٢٨۔
ایضاً، ص ٣٠۔
ایضاً ، ص ٣١۔
ایضاً، ص ٣١۔
ایضاً، ص ٣٩۔
ایضاً ، ص ٤٨۔
ایضاً، ص ٥١۔
ایضاً ، ص ٧٠۔
ایضاً ، ص ٧٠،
ایضاً، ص ٧٠ – ٧١۔
ایضاً، ص ٢٢۔
غنی خان، خان صاحب، فرنٹیر پوسٹ پبلیکیشنز، ١٩٩٣ء ، صفحہ نمبر ندارد۔
ایضاً، ص ٢٠۔
ایضاً، ص ٢٢۔
ایضاً، ص ٢٤۔
ایضاً، ص ٣٩۔
ایضاً، ص ٤٧۔
ایضاً، ص ٤٨۔
د نثر گلدستہ، مشمولہ پروفیسر ڈاکٹر راج ولی شاہ خٹک، د رنگ او نور شاعر – غنی خان، ، ص ٢٩٥۔
غنی، د غنی کلیات، د قومونو اوقبائلو وزارت افغانستان، ١٣٦٤ش / ١٩٨٥ء، ص ١
غني خان، د غني کليات، د قومونو او قبائلو وزارت، د نشراتو رياست، ١٩٨٥ء، ص ٣٩٧.
ايضاً، ص ٥١٢ – ٥١٤.
اس آرٹیکل میں تمام خیالات اور راۓ مصنف کی اپنی ہے۔ راٸٹرزکلب کا مصنف کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
The Author is the Head Department of Pashto and also is In-Charge of historic Khyber Union of the Islamia College University Peshawar. The Author is member of Writers Club Pakistan management committee. His detailed profile is available in Writers Directory.
Pingback: غنی خان – حیات و خدمات | By Abaseen Yousafzai | Writers Club Pakistan