موسیقی
میں اپنی محبوبہ کے پاس بیٹھا اس کی باتوں کا لطف اٹھا رہا تھا۔ یکایک میری روح لامحدود خلاوں میں جہاں ساری کائنات ایک خواب اور جسم ایک تنگ و تاریک قید خانہ نظر آتا ہے، گھومنے لگی
میری محبوبہ کی مسحورکن آواز میرے دل کی گہرائیوں میں اترنے لگی۔ اے میرے دوست یہ بھی ایک نغمہ ہے۔ میں نے یہ نغمہ اپنی محبوبہ کی سانسوں اور ان میں الفاظ میں سنا جو ابھی زیر لب تھے
میں نے اپنی قوت سماعت کے ذریعے اپنی محبوبہ کے دل کا مشاہدہ کرلیا۔
اے میرے دوستو! موسیقی روحوں کی زبان ہے۔ اس کے نغمات شوخ سنگ و باد نسیم کی طرح ہیں۔ جو دل کے تاروں میں محبت کا ارتعاش پیدا کرتے ہیں۔ جب موسیقی کی نرم و نازک انگلیاں جذبات کے دروازے پر دستک دیتی ہیں تو تو وہ ان تمام یادوں کو تازہ کردیتی ہیں۔ جو اس سے پہلے ماضی کے پردوں میں چھپی ہوئی ہوتی ہے۔ موسیقی کی افسردہ لہریں افسوسناک واقعات کی یاد دلاتی ہیں اور طربیہ سریں مسرت و خوشی کے لمحات کو تازہ کرتی ہیں۔ کھبی یہ سریں کسی عزیز و اقارب کے سانحہ ارتحال کی یاد دلاتی ہیں۔ اور کھبی یہی سریں ہماری مسکراہٹ کا باعث بنتی ہیں۔
ہماری روحیں نرم و نازک پھولوں کی طرح ہیں جن کا وجود تقدیر کی ہواوں کے رحم و کرم پر ہے وہ صبح کے وقت باد نسیم کے سامنے کانپتی ہیں۔ اور جب شبنم پڑتی ہے تو اپنی گردنیں جھکا لیتی ہیں۔
پرندوں کے نغمے انسان کو نیند سے بیدار کرتے ہیں۔ اور اس ابدی عقل کی تسبیح میں شریک ہونے کی دعوت دیتے ہیں جن سے نغمے پیدا کئے۔
یہ نغمات سننے کے بعد ہم اپنے آپ کو پرانی کتابوں میں مخفی اسرار اور انکے معانی پوچھنے پر مجبور ہوجاتے ہیں
جب پرندے گاتے ہیں تو کیا وہ باغوں، کھیتوں اور پھولوں کو آوازیں دیتے ہیں؟ یا وہ درختوں اور پودوں سے مصروف تکلم ہوتے ہیں۔ اور یا پھر کیا وہ ندیوں کی صدائے باز گشت ہیں؟ انسان باوجود اپنے علم و فضل کے یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ پرندے کیا کہتے ہیں۔ نہ وہ سمجھ سکتے ہیں کہ ندی کیا گنگناتی ہے۔ وہ یہ بات سمجھنے کے بھی قابل نہیں ہے کہ سمندر کی لہریں ساحل سے بار بار لپٹ کر کیا سرگوشیاں کررہی ہیں۔
انسان اپنی عقل و خرد اور فہم و ادراک کے باوجود یہ نہیں جان سکتا کہ بارش کے قطرے درختون کے پتوں سے ہمکنار ہوکر یا کھڑکیوں کے شیشوں پر دستک دے کر کیا گفتگو کرتے ہیں۔ وہ یہ راز بھی سمجھنے سے قاصر ہے کہ بادنسیم پھولوں کے کانوں میں کیا پیغام سناتی ہے
لیکن انسان کا دل ان تمام جذبات اور آوازوں کے تمام تر معانی اور مطالب کو اچھی طرح سمجھتا ہے جو اس کے دل کی گہرائیوں میں وارد ہوتے ہیں۔ حقیقت کل بعض اوقات اس کے ساتھ ایک پر اسرار زبان میں ہم کلام ہوتی ہے۔ روح اور فطرت دونوں ایک دوسرے کے انداز تکلم کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ وہ اکثر ہم کلام ہوتے ہیں لیکن انسان چپ چاپ اور خاموش حیرت زدہ ہو کر ان کی طرف تکتا رہتا ہے
کیا بعض اوقات انسان ان اوازوں کو سن کر رو نہیں دیتا اور کیا اس کے آنسو اس کے فہم و ادراک کی فصاحت کا اظہار نہیں ہوتے؟
وجدانی موسیقی!
روح محبت کی دختر!
تلخ و شیریں جام!
انسانی قلوب کا خواب اور رنج و الم کا ثمر۔
مسرت کا پھول جذبات کی شگفتگی اور خوشبو ۔
محبت کرنے والوں کی زبان اور منکشف اسرار۔
چھپی ہوئی محبت کے آنسووں کی ماں۔
شاعروں، موسیقاروں اور فنکاروں کا وجدان۔
الفاظ کے انتشار میں وحدت فکر۔
حسن کی دولت سے محبت بخشنے والی۔
اعلیٰ دلوں کو خوابوں کی دنیا عطاء کرنے والی۔
سپاہیوں کی حوصلہ افزائی کرنے والی روحوں کو قوی تر بنانے والی بحر و ترحم و شفقت۔
اے موسیقی!
تمہاری گہرائیوں میں اپنے قلب و نظر ڈبو دیتے ہیں۔
تو نے ہمیں کانوں کے ذریعے دیکھنا اور دلوں کے ذریعے سننا سکھایا۔
کلیات خلیل جبران، مرتب حفیظ گوہر)
خلیل جبران