پشتو موسیقی میں ھارون باچہ کی انفرادیت
شعبہ موسیقی میں بر صغیر کے تقریباٙٙ تمام بولنے والی زبانوں کے موسیقاروں میں اھل ذوق طبقہ گلوکاری کی صنف میں گویّیے کو جس قدر و منزلت کا درجہ دیتے ھیں وہ کسی عام گلوکار کو میّسر نہیں۔ جس کے لیئے عوام میں مقبولیت کو بھی شرط یا عمل دخل کا جواز ناقابلِ قبول ھوتا ھے۔ یعنی ضروری نیہں کہ کوئی گلوکار مقبول ھو تو وہ گویّہ کے شمار میں ھو۔
گائیکی
گانے کے اُس انداز کو کہا جاتا ھے جس میں پیش کار کسی کمپوز میں شاعری کے الفاظ کو مطلوبہ راگ کے تمام مستعمل سروں کے مجموعہ کے ساتھ ایک مخصوص ضابطے، قانون، قاعدے کے مطابق درھم(beat) لے(tempo)کے مزاج میں رہ کر اس طرح ادا کریں کہ تلفظ کی ادائیگی راگ کے آروھی(راگ کے سروں میں نیچھے سے اوپر جانا”سا رے گا ما)اور امروھی(اوپر سے نیچھے آنا “سا نی دھا پا ما)میں خوبصورتی کے ساتھ لگے۔یا کسی ایک لفظ یا لائن کو مندرجہ بالا کلیہ کے مطابق متعدد بار مختلف طرح سے ادا کرنا شامل ھے۔
اس زمرے میں تو ھندوستان خودکفیل ھے بہت سی مثالوں میں آسانی کے ساتھ سمجھنے اور موقف کو واضح کرنے کے لیئے جگجیت سنگھ اور ھری ارن کی مثالیں کافی سمجھتا ھوں۔
پاکستان
پاکستان میں مہدی حسن۔
جسے جگجیت سنگھ نے بھی گائیکی میں اپنا استاد تسلیم کیا)اعجاز حسین حضروی، غلام علی(چھپکے چھپکے رات دن)اور چند دیگر
سندھ
سندھ میں اسکا رواج تقریباٙٙ عام ھے۔خاص طور پر استاد منظور علی خان کے بعد تو اس انداز کو بہت پزیرائی ملی،جوکہ استاد منظورعلی خان نے گوالیار گھرانے کےکلاسیکی موسیقی کے اسلوب اور شاہ عبدالطیف بٹھائی کےدیوان(شاہ جورسالو جس میں شاہ سائیں نے ھر کلام سے ساتھ راگ تجویز کیا ھے) کے امتراج سے اختراج کرکے مقبولیت بخشی۔
میڈم عابدہ پروین اور محمد یوسف(سندھی فلموں کے پلے بیک سنگر اور کافی کلام کے ماھر گوئیے)استاد محمد جمن،ماسٹر ایاز علی اور بہت سارے دیگر۔
خیبر پختونخوا
اس سلسلے میں غیر معروف رھا۔استاد صحبت مرغز( آل مردان) استاد اول میر،استاد عبداٙللّٰہ جان،استاد سبزعلی اور دیگر میں گائیکی کی خصوصیات موجود تھی۔لیکن اس طرح بروئے کار نیہں لائی جاسکی۔ھاں البتہ میڈم باچہ زرین جان اس حوالے سے نمایاں رھی۔محترمہ کسی بھی صورت میڈم فریدہ خانم اور اقبال بانوں(پاکستانی غزل گائیکہ جواتین)سے کم نہ تھی۔
سنہ۔1970 کے بعد جب گراموفون سے کیسٹ کی جانب پیش رفت ھوئی تو موسیقی کی صنعت میں نئی راھیں کھلنی شروع ھوئی۔اور کثیر تعداد میں گلوکار سامنے آئے۔جن میں فولک اور غزل گو دونوں شامل ھیں۔لیکن گائیکی کا رجحان نہ ھونے کے برابر رھا۔حالانکہ ھر باشعور گلو کار گائیکی کا خواھاں ھوتا ھے۔
سنہ 1980 کے عشرے میں افغان انقلاب کے بعد استاد محترم شاہ ولی کے پاکستان آمد کے بعد پشتو موسیقی میں گائیکی کا کچھ عنصر ضرور شامل رھا۔اسکے بیٹوں میں بھی یہ رجحان یایاجاتا ھے۔دورِ حاضر میں انکے برخوردار شمالی افغان اس طبع آزمائی میں مصروف عمل ھیں۔
جبکہ انتہائی قابلِ قدر ،قابل،ادب قابلِ عزت،قابل حترام خیال محمد لالا کا معیار بہت ھی ذیادہ بلند ھے،جس کی نوعیّت بہت ھی ذیادہ مختلف ھے۔(مناسب موقع پر الگ تحریر میں وضاحت کرونگا انشاءاٙللّٰہ)
مندرجہ بالا تمہید کامقصد ان حقائق کی نشاندھی ھے جس کی بنیاد پر ھارون باچہ کی انفرادیت ازخود آپ قارئین پر واضح ھوجائے۔پشتو موسیقی کی تاریخ میں اس نوعیت کی گائیکی کبھی سننے میں نہیں آئی،جو بین الاقوامی معیار کی ھو۔جس میں تلفظ کی ادائیگی بھی اس درجہ شفاف ھو کہ بہ آسانی سمجھ میں آسکیں،اور اِس وقت جنوبی ایشیا میں پاکستان،ھندوستان،افغانستان،بنگلہ دیش اور مالدیپ وغیرہ میں اِ اندازِ کو متفقہ طور پر اسٹینڈرڈ تسلیم کیا جاتا ھے۔ھندوستان میں مذکورہ دونوں شخصیات جگجیت سنگھ اور ھری ارن کو بھی اسی انداز کی بدولت مفرد مقام حاصل ھے۔
خوش قسمتی ھے پختونوں کی کہ فنونِ لطیفہ کے شعبے میں ھارون باچہ جیسے گائگ موجود ھے کہ جس کا موازنہ کسی ایشیائی زبانوں کے گائیک کے ساتھ بِلاجھجک کیا جاسکتا ھے۔یہ باور بھی کراتا چلوں کہ مینول اسٹرومینٹ(رویتی سازوں)کے ساتھ لائیو گائیکی اور اِس جدید حساس ٹیکنالوجی پر گائیگی میں بہت فرق ھے۔کمپیوٹر پر گائیکی بہت ھی ذیادہ مشکل عمل ھے۔یہ بات اس شعبہ یا شوق سے وابستہ افراد بخوبی جانتے ھیں۔
اس آرٹیکل میں تمام خیالات اور راۓ مصنف کی اپنی ہے۔ راٸٹرزکلب کا مصنف کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تحریر و تحقیق