ہمارے مزدور
شکاگو (امریکا) کے مزدور لیڈرز شہیدوں کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے ہر سال بین الاقوامی سطح پر یکم مئی کو مزدوروں کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اسی دن دنیا کے بیشتر ممالک میں سرکاری سطح پر تقریبات کا انعقاد بھی کیا جاتا ہے، پاکستان ان بدقسمت ترین ممالک میں سے ایک ہے کہ یہاں پر یکم مئی کو مزدور بیلچہ، ہتھوڑا، لوڈنگ وغیرہ سے ایک دن کے لئے بھی نجات نہیں پاتا جبکہ دوسری طرف بند ائیرکنڈیشنڈ ہالوں میں سرمایہ دار یکم مئی کی چھٹی کو مزدوروں پر تقریروں پہ خوب انجوائے کرتے ہیں۔ بہت یسے تنظیم ہے جو کہ صحیح معنوں میں اسی دن کو مزدوروں کو خاص خراج پیش کرکے ان کے بچوں کو سکول یونیفارم یا دیگر تحائف بھی دیتے ہیں جو کہ میرے ذاتی مشاہدے میں آیا ہے جسکی زندہ مثال بانڈڈ لیبر لبریشن فرنٹ اور اسی طرح کے کچھ تنظیمیں ہیں جو کہ صحیح معنوں میں بیگار اور غلامی کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں۔ یہ تو عمومی بات ہوئی۔ اب میں آتا ہوں ریاستی آئین اور دیگر قوانین کی جانب کہ آیا مملکت خداد پاکستان میں مزدوروں کے حوالے سے کیا ہے، ویسے مجھے اس وقت مولانا ابوکلام آزاد کی وہ بات ذہن میں گردش کرگئی کہ ”پاکستان مسلمان سرمایہ کاروں کا مسکن ہوگا” ىعنى مولانا کے مطابق سرمایہ کار صرف اپنے ہی سرمائے کی ایزادگی کا سوچے ګا جس کے لئے وہ مزدوروں کا بدترىن استحصال کرے ګا اگر میں مولانا ابوالکلام آزاد کی بات یہاں پر ٹال کر آئین پاکستان کی طرف رجوع کرلوں اور اسکے ساتھ زمینی حقائق کی جانچ پڑتال کرلوں تو بات واضح ہوجائے گی۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور کے آرٹیکل ۳ میں ہے
اۤرټىکل 3 استحصال کا خاتمہ
مملکت استحصال کی تمام اقسام کے خاتمہ اور اس بنیادی اصول کی تدریجی تکمیل کو یقینی بنائے گی کہ ہر کسی سے اس کی اہلیت کے مطابق کام لیا جائے گا اور ہر کسی کو اس کے کام کے مطابق معاوضہ دیا جائے گا
مذکورہ بالا آئینی آرٹیکل ایک واضح نکتہ ہے کہ ہر قسم کے استحصال کا خاتمہ کیا جائے گا، کیا اس آرٹیکل پر کتنا عمل درآمد ہوتا ہے؟ کیا پاکستان میں انصاف کے تقاضوں کے مطابق سرمایہ دار طبقہ کسی کو اپنی صلاحیت کے مطابق اجرت دیتے ہیں؟ کیا کسی سرمایہ نے اپنے فرم کے ورکرز کو ایمپلائیز اولڈ ایج بینیفٹس کے ساتھ رجسٹرڈ کیا ہے کہ بعد میں وہ ورکر اسی وفاقی ادارے سے پنشن وصول کرلے، کتنے ادارے ہونگے کہ وہ لیبر قوانین کے مطابق ورکرز کو ۸ گھنٹے کا کم از کم ماہانہ معاوضہ ۱۷۵۰۰ دیتے ہیں۔ خدا سے ڈرنے والے بہت کم ایسے غیر سرکاری ادارے ہونگے جو لیبر قوانین کے مطابق معاوضہ دیتے ہیں۔ وگرنہ EOBI سے بھی ریکارڈ چھپایا جاتا ہے اور اسی سرکاری ادارے میں ایسے شہزادے بیٹھے ہیں کہ وہ سالہاسال انہی پرائیویٹ اداروں کو پوچھتا بھی نہیں کہنے کا مطلب یہ ہے کہ بیوروکریٹس اور سرمایہ دار آپس میں ملے ہوئے طبقے ہیں جو ایک دوسرے کو سپورٹ کرتے ہیں۔
اسی طرح آئین پاکستان کے آرٹیکل ۱۱ کیا کہتا ہے اور یہاں ہوتا ہے کیا
آرٹیکل ۱۱ غلامی بیگار وغیرہ سے ممانعت
غلامی معدوم اور ممنوع ہے اور کوئی قانون کسی بھی صورت میں اسے پاکستان میں رواج دینے کی اجازت نہیں دے گا یا سہولت بہم نہیں پہنچایا جائے گا
بیگار کی تمام صورتوں اور انسانوں کی خرید و فروخت کو ممنوع قرار دیا جاتا ہے
چودہ سال سے کم عمر کے کسی بچے کو کسی کارخانے یا کان یا دیگر پرخطر ملازمت میں نہیں رکھا جائے گا
اس ارٹیکل میں مذکور کوئی امر اس لازمی خدمت پر اثر انداز متصور نہیں ہوگا
الف: جو کسی قانون کے خلاف کسی جرم کی بناء پر سزا بھگتنے والے کسی شخص سے لی جائے یا
ب: جو کسی قانون کی رو سے گرض عامہ کے لئے مطلوب ہو:
مگر شرط یہ ہے کہ کوئی لازمی خدمت ظالمانہ نوعیت کی یا شرف انسانی کے مخالف نہیں ہوگی
مذکورہ بالا ارٹیکل خاص کر غلامی اور بیگار کے حوالے سے ہے، ویسے ہی آئین اور آئین کے اندر مساوات اور برابری کی اظہار موجود ہے لیکن زمینی حقائق کیا ہے۔ آئین ایک مقدس دستاویز ہوتی ہے کیونکہ یہ عوام اور ریاست کے مابین ایک عمرانی معاہدہ ہے۔ اس لحاظ سے آئین شکنی جرم کے زمرے میں آتا ہے۔ لیکن اگر ہم آج کے اس ۲۱ ویں صدی کو دیکھے تو آج بھی بھٹہ خشت مزدور غلاموں سے بھی بدتر زندگی گذارنے پر مجبور ہے، بھٹہ خشت مالکان تھوڑے سے ایڈوانس اور قرضے کی بناء پر اسے نہ صرف محبوس رکھتا ہے بلکہ اس سے بنیادی اور انسانی حقوق بھی چھین لیتے ہیں وہ اپنی مرضى سے نقل حرکت نہیں کرسکتے اور نہ ہی اپنے بچوں کی تعلیمی تربیت کرسکتے ہیں۔ پاکستان کے بہت سارے شہروں میں بھٹہ خشت مالکان کے ظلم و ستم کے داستانیں رقم ہوچکی ہیں۔ میرے علم کے مطابق پاکستان میں آخری بار لیبر پالیسی پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت میں بنائی گئی ہے اس سے قبل قیام پاکستان کے بعد ۱۹۵۵، ۱۹۶۹، ۱۹۷۲ اور ۲۰۰۲ میں بھی لیبر پالیسیاں بن چکی ہے۔ پالیسی ایک رھنماء اصول یا گائید لائن کا نام ہے جس کے روشنی میں حکومت اقدامات کرتی ہے۔۲۰۱۰ کی پالیسی سے قبل ۱۹۷۲ کی پالیسی کی روشنی میں کئی قوانین وجود میں آئے جس میں ورکر ویلفئیر فنڈ آرڈیننس، ایمپلائیز اولڈ ایج بینیفٹ، انڈسٹرئیل ریلیشنز آرڈیننس میں کچھ ترامیم جس میں ورکرز کو کچھ تحفظ کی فراہمی کی بات شامل ہے۔ ۲۰۱۰ کی لیبر پالیسی بھی پیپلز پارٹی کی مرہون منت ہے اور اس پالیسی کے اندر مزدوروں کے ہر قسم کے پہلووں کا جائزہ لیکر رھنماء اصول بنانے اور پھر اس کو عملی کرنے کی سعی کی گئی ہے۔ لیکن میں پھر بتاتا چلوں کہ پاکستان میں قوانین اور پالیسیاں محض کاغذوں تک محدود ہوتے ہیں جس جذباتی انداز میں اس پر کروڑوں روپے خرچ کرکے پالیسیاں بنائی جاتی ہے لیکن پھر عملی طور پر اسے نافذ کرنے کے لئے حکمران طبقہ کے پاس وقت نہیں ہوتا کیونکہ اسے مزدور نہیں اپنی جاگیر اور سرمایہ عزیز ہے۔ ملک کے اندر صرف کارخانوں میں مزدور نہیں، ملک کے اندر ایسے چوراہوں پہ مزدوروں کی جم غفیر ہوتی ہے جو دہاڑی کے انتظار میں بغیر کمائی کے جھکی نگاہوں کے ساتھ واپس گھر لوٹتے ہیں اور پر سوکھی روٹی کو پانی میں بھگوکر کھاتے ہیں۔ ان لوگوں کے لئے حکمرانوڼ کے پاس کیا پلان اور پالیسی ہے۔
تحریر: اکبر ہوتی
اس آرٹیکل میں تمام خیالات اور راۓ مصنف کی اپنی ہے۔ راٸٹرزکلب کا مصنف کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
The Author is a professional writer and Chairman Writers Club Pakistan. His detail profile is available in Writers Directory.
Buhut achi tahreer hay….
Sir mujhy aj wazekh Tor py pata chala k mazdor day kia khota hy or kis tarkha manaya jata hy. Thank you
Its good
Thanks
Thank you
Every firm or comapny must register thier worksmen with EOBI. Through registration they will get benifits
EOBI is a federal department… But workers are aware
The Govt must implement labor policy of 2010 or make another efforts
Yes you are right
Pingback: Covid-19 and Role of Radio Pakhtunkhwa Pakistan
Pingback: ذکر قلندر | Written by Akbar Hoti | Writers Club Pakistan
Pingback: Shakila Naz – A Prominent Pashto Singer | Writers Club Pakistan