ذکر قلندر
گندھارا تہذیب دنیا کے سات بڑے تہذیبوں میں شمار کیا جاتا ہے اگر ہم گندھارا تہذیب کے حوالے سے مطالعہ کریں تو ہزاروں سال قبل مردان کی سرزمین پر انسانی تہذیب نے ایسے نقوش چھوڑے ہیں کہ آج تک مردان کے مدنی زندگی پر اس کے گہرے اثرات مرتب ہیں، ماہر آثارقدیمہ عثمان مردانوی کے مطابق اس زمانے میں تخت بھائی کے سری بہلول میں ایک جامعہ تھی جس میں اس وقت ۱۰۱ علوم پڑھائے جاتے تھے یہی وجہ ہے کہ گندھارا تہذیب کے گہرے اور نمایاں اثرات اب بھی قائم ہیں اور مردان علم و ادب، ثقافت، سیاست او اقتصاد کا بہت بڑا مرکز ہے۔
اگر ہم باقی موضوعات کو یہی پہ چھوڑ کر ادب کی طرف رجوع کریں تو اس مردم خیز تاریخی خطے نے بڑے بڑے عالمی معیار کے مطابق ادبی شخصیات کو جنم دیا ہیں جن میں ایک انتہائی غریب گھرانے سے تعلق رکھنے والا عبدالواحد قلندر بھی شامل ہیں۔ قومی شناختی کارڈ کے مطابق تو عبدالواحد قلندر کی تاریخ پیدائش ۱۹۵۰ ہے تاہم قلندر مرحوم نے خود اپنا صحیح سال پیدائش ۱۹۴۶ بتایا تھا ۔ اسی طرح آپ ۱۱ دسمبر ۲۰۱۷ کو وفات پاچکے ہیں۔
استاد قلندر مومند سے مماثلت رکھتے ہوئے عبدالواحد قلندر بھی ایک ہی وقت میں ادیب، صحافی اور مذہبی سکالر تھے آپ ایک مطالعہ دوست دانشور تھے، اور اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ آپ اردو پشتو اور انگریزی ادب و فلسفہ سے نہ صرف واقف تھے بلکہ انہی زبانوں میں ادب کا گہرا مطالعہ بھی کیا تھا۔ اسی طرح ادبی تنقید میں آپ کا کوئی ثانی نہیں تھا بلکہ آپ مغربی طرز پر تنقید کرنے والے ایسے ادیب تھے کہ ادبی حلقوں میں آپ کو بے رحم نقاد کے طور پر یاد کیا جاتا تھا ۔ مجلسی تنقید میں آپ کا تنقیدی نکتہ نظر سب سے الگ تھا بلکہ آپ اپنے مضبوط دلائل اور نپی تلی بحث سے مخالفین کو قانع کرنے کی قدرتی صلاحیت رکھتے تھے۔ تنقید کے ساتھ ساتھ آپ کی شاعری نے بھی سامعین کو بے ساختہ داد دینے پر مجبور کیا تھا۔ تخلیقی ادب میں افسانوی ادب پر بھی ایک خاص قدرت رکھنے والے لکھاری تھے۔ آپ نے جدید دور کے افسانے کو لکھ کر اس صنف کے تمام تقاضے پورے کیے ہیں۔ تخلیق، تنقید اور فلسفہ میں آپ کا کوئی ثانی نہیں تھا لیکن آپ نے کھبی بھی نمود و نمائش کا سہارا نہیں لیا ، آپ جیسے ادیب اپنی زندگی میں ایک مرلہ ذاتی رہائشی مکان کے مالک بھی نہ بن سکیں بلکہ کرایہ کی مکان میں ایک جگہ سے دوسری جگہ ٹھوکر مارتے رہے لیکن آپ نے اپنی قلم اور اپنی سوچ کو مفلوج ہونے نہیں دیا اور لکھتے رہے جو سوچتے رہے، آپ ایک نڈر صحافی بھی تھے “پہچان” اور روزنامہ “جانباز” کے فلیٹ فارم سے کالم کی شکل میں اپنی سوچ کو قارئین تک پہنچاتے تھے لیکن وہاں بھی آپ کے عقائد پر انگلی اٹھاتے ہوئے لوگوں کی وجہ سے جانباز کے ایڈیٹرشپ سے ہاتھ دھو بیٹھے مگر ایک لمحے کے لئے بھی مصلحت سے کام نہیں لیا کیونکہ لچک آپ کے خون میں شامل ہی نہیں تھا۔ حالانکہ اخبار میں اپنی کالموں سے بڑے بڑے صحافیوں کو حیران کردیا تھا۔ آپ اپنے نظریے کے ایک ایسے محافظ تھے کہ کھبی بھی تا دم مرگ کسی قسم کا کوئی سمجھوتہ نہیں کیا اور اپنے نظریے کا کھل کر پرچار کرتے رہے ۔ آپ قرآن کریم کی تعلیمات کے مطابق انسانی برابری پر یقین رکھتے تھے اور صرف اللہ تبارک و تعالیٰ کے کلام کو تمام مسائل کا حل سمجھتے تھے آپ سے ایک نجی انٹرویو کے مطابق آپ نے قرآن پاک کے اکثر تفاسیر کا تفصیلی مطالعہ کیا تھا اور اسی طرح دنیا کے بڑے بڑے عوامی انقلابات کا بھی مطالعہ کرکے اسی تناظر میں ملک و قوم کے مسائل کا حل تلاش کیا کرتے تھے۔ آپ نے کھبی یہ سعی نہیں کی تھی کہ اپنے شعری یا نثری مجموعات کو شائع کریں لیکن شاعر ادیب مہر اندیش کی خصوصی دلچسپی اور کاوش سے ” د ادبی دوستانو مرکہ مردان” کے زیر اہتمام آپ کا پہلا شعری مجموعہ “انکار” آپ کی زندگی میں ہی شائع ہوا۔ آپ کے بہت سارے ادبی فنپارے دربدر ہونے کی وجہ سے ضائع بھی ہوچکے ہیں لیکن آپ کے انتقال کے بعد مہراندیش کی کاوشوں سے آپ کی نثری کلیات پر کام جاری ہے اور امید ہے کہ بہت جلد آپ کی نثری کلیات بھی منظر عام پر آجائے گی جو نوجوان ادیبوں اور اہل ذوق کے لیے مشعل راہ ثابت ہوگی۔ آپ ایک سنجیدہ اور معیاری ادب تخلیق کرنے والے ایک غریب، بے بس اور لاچار فقیر انسان تھے لیکن تنقید میں آپ کی جارح مزاجی کی وجہ سے اکثر ادبی دوست و احباب آپ سے ناراض بھی رہتے تھے مگر آپ کی بے رحم تنقید اور جارح مزاجی میں بھی انس تھا اور یہ مرکہ مردان کی خوش قسمتی رہی کہ ایک زمانے میں قلندر صاحب مستقل اس تنظیم سے وابستہ رہے اور مرکہ مردان کے نوجوانوں کو آپ سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا ہیں ۔ اب آپ جسمانی طور ہمارے ہاں موجود نہیں لیکن روحانی طور پر ہمارے دلوں اور ذہنوں میں قلندر صاحب زندہ ہے آپ کے افکار آپ کے فنپارے اور آپ کی یادیں ہمارے سینوں میں محفوظ ہیں ہم آپ کو یاد کرتے رہیں گے ہم آپ کے ذکر چھیڑتے رہیں گے اور اتنا چھیڑیں گے کہ اس کی گونج آنے والے نسلوں کے لیے محفوظ رکھیں گے
اس آرٹیکل میں تمام خیالات اور راۓ مصنف کی اپنی ہے۔ راٸٹرزکلب کا مصنف کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
The Author is a professional writer and Chairman Writers Club Pakistan. His detail profile is available in Writers Directory.
ڈیر خہ معلوماتی
Zbrdast hoti sab ,
Full of knowledge
ڈیر خہ او معلوماتی دے پہ قلم دے برکت شہ
Pingback: The Pride of Pakhtunkhwa | Akbar Hoti | Writers Club Pakistan
Pingback: Covid-19 and Role of Radio Pakhtunkhwa Pakistan